اسلام آباد (اے این این) صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ چاہتی ہے کہ ایوان صدر سیاسی کردار جاری رکھے‘ عوام کو بااختیار بنا کر آگے بڑھایا جا سکتا ہے‘ صوبوں کو اختیارات دینا ہمارا عزم ہے‘ ہم سکیورٹی خراب کرنے والوں سے جنگ لڑ رہے ہیں‘ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی سوچ تبدیل کرنا ہو گی‘ سیاسی جماعتیں آہستہ آہستہ بہتری کی جانب آرہی ہیں۔ منگل کو وزارت اطلاعات کے زیر اہتمام ”لیڈر آف ٹومارو“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آئندہ نسل کے معماروں اور رہنماﺅں سے خطاب میرے لئے باعث اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات نے مجھے ملک کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ ایوان صدر کا مخصوص کردار ہے۔ پارلیمنٹ عوامی خواہشات اور دانش کی عکاس ہے اور اصل اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ پارلیمنٹ کا خیال ہے کہ صدر کو سیاست میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ اور ایوان صدر کا اپنا اپنا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے تمام صوبوں کو خودمختاری دی ہے۔ عوام کو بااختیار بناکر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم بہتری کا آغاز کرچکے ہیں اور بہترین کی جانب سفر جاری ہے۔ ہمیں ملک کیلئے سوچنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم پاکستان کیلئے اور آنے والے کل کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سکیورٹی خراب کرنے اور ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والی سوچ کیخلاف برسرپیکار ہے۔ دہشت گرد نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اور آگے بڑھے۔ ہمیں اس سوچ کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ طلبا کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کسی دوسرے ملک سے امداد نہیں بلکہ تجارت چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت نے صوبوں کو بااختیار بنایا اور ان کے فنڈز میں دس گنا اضافہ کیا۔ ہم اس عزم پر گامزن ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ ہم عوام کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے غزہ پر فلسطینی حملوں کی ہر فورم پر بھرپور مذمت کی ہے اور نوجوانوں کو جلسے جلوسوں سے نہیں روکا۔ اسلام کے حوالے سے ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ لیڈر بننے کیلئے محنت کے سوا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو آئندہ کے حالات پر نظر رکھے‘ جسے لوگ تسلیم کریں‘ جو محنت اور قربانی دینا جانتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں رفتہ رفتہ بہتری آرہی ہے۔ سیاسی اتار چڑھاﺅ میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا امریکہ کیساتھ تحویل مجرمان یا قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اگر ایسا معاہدہ ہوتا تو عافیہ صدیقی آج پاکستان میں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور قیام امن کیلئے صوبائی حکومتوں کیساتھ تعاون کر رہی ہے۔ امن و امان کا مسئلہ بنیادی طور پر صوبوں کا ہے۔ وفاقی حکومت فنڈز اور بوقت ضرورت ایف سی یا پیرا ملٹری فورسز فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پی کے کے سکولوں میں بہت سے افغان بچے زیر تعلیم ہیں اور ہسپتالوں میں افغان شہریوں کا بھی علاج ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واحد آدمی ہوں جس نے سب سے زیادہ تنقید برداشت کی۔ میری زندگی کسی افسانے سے بھی دلچسپ ہے۔ سیاست میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی متنازعہ نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں آنے والے کل کے بارے میں سوچنا ہو گا اور مستقبل کی پالیسیوں پر بھی غور کرنا ہو گا۔ پاکستان میں قیام امن کیلئے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذہنیت کو بدلنا ضروری ہے۔ ہم مخصوص ذہنیت کے خلاف لڑ رہے ہیں، میں واحد شخص ہوں جس پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی لیکن میں نے اسے تحمل سے برداشت کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی نے سوات میں ایسے حالات میں تعلیم اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھائی جب وہاں طالبان سے لوگ خوفزدہ تھے۔ معصوم بچوں اور خواتین پر طالبان کا ڈر طاری تھا۔ مشکل حالات میں ملالہ یوسف زئی نے آواز اٹھائی۔ وہ کسی ملک کی ایجنٹ نہیں‘ عظیم اور محب وطن پاکستانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ کسی اور کیلئے نہیں اپنے ملک کیلئے لڑ رہے ہیں۔ طالبان نے ماضی میں ہر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے لیکن ہم ملک میں قیام امن کیلئے آئین پاکستان کو تسلیم کرنے اور ہتھیار پھینکنے والے انتہا پسندوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ ہمیں قائداعظم‘ بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسف زئی کا پاکستان چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں اصل لیڈر عوام خود ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ میری والدہ کو انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ اقوام متحدہ اور پاکستانی اداروں کی رپورٹس نے اس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی کے کہنے پر کچھ نہیں کرے گا۔ ہم وہی کریں گے جو ملکی مفاد میں ہوگا۔ اگر طالبان ہتھیار پھینک کر آئین پاکستان‘ ملکی اداروں اور ملکی عدالتوں کو تسلیم کریں تو کسی بھی جگہ آپریشن کی ضرورت نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان حملوں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ ڈرون حملے ہمارے دور میں نہیں پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئے۔ ہماری حکومت نے ان ڈرون حملوں کی منظوری نہیں دی بلکہ امریکہ سے شمسی ایئر بیس خالی کرایا ہے۔ ہم کسی اور کے نہیں اپنے کاموں کیلئے جوابدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج تحریک انصاف ڈرون حملوں پر واویلا کررہی ہے اور شاہ محمود قریشی سب سے آگے ہیں لیکن وہ ہماری پارٹی میں رہ کر وزیر خارجہ رہے ہیں تب انہوں نے ڈرون حملے رکوانے کیلئے کیوں کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ آج پاکستان حالت جنگ میں ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتیں ملکی سلامتی کیلئے ہمارے ساتھ ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہو جائیں۔ ہم آئندہ الیکشن میں حصہ لینے پر عمران خان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے پاکستان کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سمیت مختلف سیاسی رہنما ہماری پارٹی پر کرپشن کے حوالے سے تنقید کرتے ہیں۔ ماضی میں اسی طرح کا پراپیگنڈا میری والدہ کیخلاف بھی کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کیخلاف الزامات کی بجائے متحد ہوکر کرپشن اور دہشت گردی کیخلاف ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھی متحد ہوں گی۔ اس دہشت گردی میں لاہور سمیت تمام شہر متاثر ہورہے ہیں۔ تقریب میں ملک بھر کے 14 ممتاز اداروں کے طلبا نے شرکت کی اور ان تعلیمی اداروںکو صدر آصف علی زرداری کی جانب سے تعلیم کے شعبے میں خدمات کے اعتراف پر یادگاری شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔ ان تعلیمی اداروں میں ایچی سن کالج‘ بیکن ہاﺅس‘ پنجاب یونیورسٹی‘ سائسا‘ یونیورسٹی آف لاہور‘ لاہور کالج برائے خواتین‘ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ یونیورسٹی آف ساﺅتھ ایشیا‘ لاہور کالج آف اکنامکس‘ پنجاب گروپ آف کالجز‘ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور‘ یونیورسٹی آف ایجوکیشن‘ روٹس کالج اور یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب شامل ہیں۔ تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ سمیت وفاقی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔