اسلام آباد (وقائع نگار+بی بی سی) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اقبال حمید الرحمن نے رمشا مسیح کے خلاف مقدس اوراق کی بیحرمتی کے خلاف پرچہ خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے دوران تفتیش معصوم قرار دی جانے والی رمشا مسیح کے خلاف ٹرائل کی اجازت دینا انصاف کے منافی ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-B کا اطلاق صرف اس وقت ہوتا ہے جب جان بوجھ کر قرآن پاک کی بےحرمتی کی جائے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کسی نے بھی رمشا کو مقدس اوراق جلاتے نہیں دیکھا ¾ ایسی صورت میں اس پر 295-B کا اطلاق درست نہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق درخواست گزار کی ذہنی کیفیت بھی درست نہیں اور وہ مذہبی احساسات سے مکمل طور پر ناواقف ہے۔ فاضل عدالت نے فیصلے میں آبزرویشن دیتے ہوئے کہا ہے بطور مسلمان ہم قرآن پاک سے رہنمائی لیتے ہیں جس میں کئی جگہ پر الزام تراشی سے منع کیا گیا ہے۔ یہ احکامات صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہیں۔ اس لئے کسی پر ایسے الزامات لگاتے وقت غیر معمولی ا حتیاط ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو منگل کو سنایا گیا۔ بی بی سی کا کہنا ہے سرکاری ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا ایسے الزامات لگاتے ہوئے انتہائی احتیاط برتنی چاہئے۔ انہوں نے کہا یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور کسی مسلم یا غیر مسلم کے خلاف بے بنیاد اور غلط الزامات نہیں لگانے چاہئیں۔ وزارت داخلہ کے اہلکارنے بی بی سی کو بتایا اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے رمشا مسیح کا نام توہین عدالت کے مقدمے سے خارج ہونے کے باوجود ان کی اور ان کے اہلخانہ کی سکیورٹی واپس نہیں لی جائے گی کیونکہ ان کی زندگی کو اب بھی خطرات لاحق ہیں۔ توہین مذہب کے مقدمے کے تفتیشی افسر منیر حسین جعفری نے بی بی سی کو بتایا اس مقدمے کے دوسرے ملزم اور مقامی مسجد کے پیش امام خالد جدون کیخلاف کارروائی چلتی رہے گی۔ انہوں نے کہا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت جاری ہے اور آئندہ سماعت پر پولیس اہلکاروں کے علاوہ مقامی مسجد کے نائب خطیب حافظ زبیر اور اس مقدمے کے مدعی ملک حماد کے بیانات قلمبند کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا پولیس نے اس مقدمے کا حتمی چالان متعلقہ عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔