اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ریکوڈک کیس کی سماعت، عدالت نے دلائل مکمل کرنے والے وکلاءکو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے دلائل کے مطابق پوائنٹس تحریری شکل میں عدالت میں جمع کروائیں۔ عالمی ثالثی عدالت میں موجود کیس کا پاکستانی قوانین کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ بلوچستان حکومت اور غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی کے مابین معاہدے کی قانونی حیثیت کیا ہے اور عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویز مجاز اتھارٹی کی جانب سے جاری کی گئی ہے یا نہیں۔ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو رضا کاظم ایڈووکیٹ، بیرسٹر ظفر اللہ خان، اعظم سواتی، غیرملکی کمپنی ٹی سی سی کے وکیل خالد انور نے دلائل دئیے اس موقع پر سابق سینیٹراعظم سواتی نے عدالت کوبتایا کہ انہوں نے اس کیس کے بارے میں حقائق بتانے کیلئے دسمبر 2011ءمیں درخواست دی تھی جس کی تاحال سماعت نہ ہو سکی عدالت کے استفسار پر انہوں نے استدعا کی کہ بلوچستان حکومت اور غیرملکی کمپنی ٹی سی سی کے مابین کان کنی کے معاہدے کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور صوبائی حکومت کومتعلقہ علاقے میں کان کنی کی اجازت دی جائے، آئین وقانون کے خلاف بلوچستان کے عوام کے حقوق نظرانداز کرکے معاہدہ کیا گیا بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ ہماری تاریخ ہے کہ غیرملکی کمپنیوں کو کام کرنے کے لائسنس دئیے گئے۔ معاہدہ کریمنل، فراڈ اور کرپشن کی مد میں آتا ہے شفافیت کے تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا، کروڑوں روپے کی گاڑیاں، کمپیوٹر اور دیگر اشیا استعمال کی گئیں ایسا دھوکہ دینا توہین عدالت اور آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ ٹی سی سی کے وکیل خالد انور نے عدالت کوبتایا کہ ٹی سی سی کمپنی پر معاہدے کے مطابق نہ چلنے اور کرپشن کے الزامات لگائے جا رہےہیں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی کمپنی سونا اور تانبا کی شکل میں پاکستانی وسائل چوری کر رہی ہے حالانکہ درخواست گزار مرحوم نے اپنی درخواست میں صرف یہ الزام لگایا تھا کہ ٹی سی سی لائسنس کے مطابق کان کنی کرنے میں سنجیدہ نہیں اور اگر وہ یہ یقین دلا دے کہ وہ کان کنی کا کام تیزی اور موثر انداز میں کریں گے تو وہ اپنی درخواست واپس لینے کیلئے تیار ہے ان کا کہنا تھا کہ جو لاء فرم کرپشن کی بات کر رہی ہے بی ایچ پی نے کبھی اس سے رابطہ نہیں کیا اور مائننگ لائسنس کیلئے قواعد میں نرمی کرنے کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں وفاقی حکومت کے مطابق کان کنی کا معاہدہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے جس کا احترام کرنا چاہئے، 99مربع کلو میٹر کمپنی میں سے 22 مربع کلو میٹر کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی گئی لائسنس ملنے کے بعد 80 ملین ڈالرز فزبیلٹی رپورٹ پر خرچ کرکے کاپر اور سونے کو تلاش کیا جس کا 25 فیصد صوبائی حکومت کو ملے گا اور ٹیکس اور دیگر مدوں میں مجموعی طور پر پاکستان کو 52 فیصد اور کمپنی کو 48 فیصد منافع حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 107 غیر ملکی کمپنیاں مقامی قوانین کے مطابق معدنیات تلاش کر رہی ہیں اس کمپنی کوبھی کام کرنے دیا جائے ورنہ ہمیں سونا ملے گا نہ کاپر متعلقہ حکومتی اداروں نے گزشتہ دس سال میں تھرکول کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے جہاں بیس ہزار ملازمین کو آٹھ سال کی سیلری ودیگر اخراجات دئیے گئے۔ بعدازاں چائنز کمپنی سے ہاتھ جوڑ لئے گئے ہیں لیکن ایک اونس کوئلہ تلاش نہیں کر سکے جسٹس گلزار نے ان سے کہا کہ غیر ملکی کمپنی جو بھی کہے کیا صوبائی حکومت اسے مان لے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس مرحلہ پر عدالت صرف معاہدے کے قانونی حیثیت کا جائزہ لینے تک محدود ہے ہم دستاویز کا جائزہ لیں گے کہ آیا یہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے جاری کی گئی تھیں تمام معاملات پاکستانی قانون کے مطابق دیکھیں گے، جس پر خالد انور کا کہنا تھا کہ کمپنی کی مائننگ لیز کا لائسنس منسوخ کیا جا چکا ہے، مزید اب کیا چاہئے، معاملہ تو ختم ہو چکا ہے۔ کمپنی کا جرم یہ ہے کہ اس نے پاکستان کیلئے معدنیات تلاش کئے جس کا ملک کو فائدہ ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی سی سی بھی تو معاہدے کے ساتھ ہی زندہ رہ سکتی ہے خالد انور نے کہا کہ بلوچستان حکومت منصوبے میں رکاوٹ نہ بنے اگر منصوبہ صوبائی حکومت کو دیا گیا تو نہ ہمیں سونا ملے گا نہ کاپر بلکہ سب کچھ صرف چند لوگوں کی جیب میں جائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح نہ کہیں کان کنی بلوچستان میں گھریلو صنعت کی حیثیت رکھتی ہے اس کو انڈر مائن نہ کیا جائے ہندو پاک میں بہترین قسم کا کرومائٹ پایا جاتا ہے کوئلہ، سلفر کے علاوہ ماربل اٹلی تک جا رہا ہے۔ پاکستان میں بلوچستان کی معدنیات کے سوا کچھ نہیں، بلوچستان حکومت کو اتنا بھی مورد الزام نہ ٹھہرائیں ہم بلوچستان بدامنی کیس کے حوالے سے بھی اسے بہت کچھ کہتے رہتے ہیں، خالد انور کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید آج بدھ تک سماعت ملتوی کر دی۔