پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کی معطلی اور غیرقانونی طور پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم میں آئین کے آرٹیکل 6کے تحت عدالتی کارروائی ہونے جا رہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 6کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص غیر آئینی طریقے سے آئین توڑے گا یا توڑنے کی کوشش کرے گا تو اس پر سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ جنرل (ر) مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کس نہج پر چلتی ہے اور اس کا منطقی انجام کیا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سب سے پہلی اور بڑی آئینی خلاف ورزی 24دسمبر 1955ءکو ہوئی جب اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو منسوخ کر دیا۔ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین اس فیصلے کے خلاف سندھ چیف کورٹ چلے گئے۔ سندھ چیف کورٹ کے فل بنچ نے متفقہ طور پر گورنر جنرل غلام محمد کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس پر وہ فیڈرل کورٹ میں اپیل پر چلے گئے جس نے ایک کے مقابلے میں چار ووٹوں کی اکثریت سے نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کی شرط کے ساتھ گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ بعدازاں فیڈرل کورٹ کے جج منیر احمد نے کئی مواقع پر تسلیم کیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر رکھ کر کیا گیا تھا۔
دوسری دستور ساز اسمبلی نے 1956ءمیں قوم کو پہلا آئین دیا جسے جنرل ایوب خان نے دو سال بعد ہی اقتدار پر قبضہ کر کے مارشل لاءکے ذریعے منسوخ کر دیا۔ اس اقدام کو دو سو کیس میں چیلنج کیا گیا جس پر عدلیہ نے ایوبی مارشل لاءکو جائز قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ایک جیتا ہوا انقلاب یا کامیاب تختہ الٹنا (coup de at)بین الاقوامی طور پر آئین تبدیل کرنے کا تسلیم شدہ قانونی طریقہ ہے۔ ایوب خان نے اپنی طرف سے جمہوری انداز میں تشکیل پانے والے ملک کو ایک شخصی آئین 1962ءمیں دیا مگر جب انہیں زوال ہوا تو جاتے جاتے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے بجائے جنرل یحیٰی خان کے سپرد کر گئے۔ ملک ایک مرتبہ پھر مارشل لاءکی گود میں چلا گیا۔ اس مارشل لاءکو عاصمہ جیلانی کیس میں چیلنج کیا گیا۔ عدلیہ نے قرار دیا کہ ”دفاع افواج کا کمانڈر آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔ وہ آئین کو تباہ نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ دیا گیا کہ فوجی راج جو جنرل یحیٰی خان نے مارشل لاءکے اعلان سے ٹھونسا تھا سراسر خلاف قانون تھا۔ لیکن یہ فیصلہ اس وقت دیا گیا جب یحیٰی خان ملک کا آدھا حصہ گنوا کر خود اقتدار سے الگ ہو چکے تھے۔
بقیہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے قوم کو 1973ءمیں متفقہ آئین دیا۔ 1979ءضیاالحق نے بھٹو حکومت ختم کر کے مارشل لاءنافذ کیا اور ساتھ ہی آئین کو بھی معطل کر دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کیس میں نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھ کر ضیاءکے مارشل لا کو جائز قرار دیتے ہوئے انہیں آئین میں ترامیم کا بھی اختیار دے دیا۔ 1985ءمیں معطل شدہ آئین بحال ہوا مگر آٹھویں ترمیم کی شرط پر جس کے ذریعے صدر ضیاالحق نے اپنے اندر سمیٹ لئے تھے اور اپنے اقدامات کا تحفظ کروا لیا تھا نئے اختیارات کے تحت 188ءمیں جنرل ضیاءنے جونیجو حکومت کو برخاست کرنے کیساتھ ساتھ قومی اسمبلی کو بھی برطرف کر دیا۔ حاجی سیف اللہ کیس میں عدلیہ نے جنرل ضیاءکے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا مگر ان کی حادثاتی موت کے بعد۔
آخری مرتبہ جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر کو مارشل لاءلگائے بغیر نواز شریف حکومت اور قومی اسمبلی کو برخاست کیا اور ساتھ ہی 1973ءکا آئین بھی معطل کر دیا۔ مسلم لیگی رہنما ظفر علی شاہ نے عدلیہ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے متفقہ طور پر جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے روائتی فلسفے کے تحت جائز قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس نے فوجی حکمرانوں کو آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا جس کی حکومت نے درخواست ہی نہیں کی تھی۔ اسی اختیار کے تحت جنرل مشرف نے آئین میں پے در پے ترامیم کیں۔ 9/11کے بعد حالات بھی ان کے حق میں سازگار ثابت ہوئے اور اب وہ پوری طرح امریکہ کے اتحادی بن گئے۔ 2006ءکے بعد سیاسی حالات مشرف کیلئے سازگار رہے۔ 9مارچ 2007ءکو سب سے پہلے انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جبری رخصت پر بھیجا، جنہیں بعد ازاں سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی روائتی قوتوں نے اس فیصلے کو اپنی شکست سمجھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے درجنوں غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کے مقدمات بھی سول اور ملٹری انٹیلی جینس اداروں کا ناک میں دم کیا تھا۔ ان حالات میں جنرل پرویز مشرف نے ایک آمر کی طرح آئین سے ماورا اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا اور چیف آف آرمی کی حیثیت سے 3نومبر 2007ءملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کیساتھ سات آئین کو التوا (Abeyance) میں ڈال کر پی سی او جاری کر دیا۔ اس حکم نامے کے تحت سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹوں کے ججوں کو فارغ کر دیا گیا اور اپنی مرضی کے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوایا۔ اسی دوران نئے انتخابات کے نتیجے میں اسکی حامی سیاسی قوتوں کو شکست ہو گئی اور پیپلز پارٹی برسراقتدار آ گئی۔ حکومت سول سوسائٹی کے دباﺅ میں آ کر عدلیہ کو بحال کرنے پر مجبور ہو گئی۔ بعد ازاں عدلیہ نے موجودہ حکومت کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6کے تحت کارروائی کا بھی حکم دیا۔ اسی حکومت کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ابتدائی تحقیقات کے بعد اب عدالتی کارروائی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ بلاشبہ اس کارروائی کے بارے میں کچھ تحفظات سامنے آئیں گے۔ مثلاً
1۔ کیا فوج اپنے ایک سابق جنرل کو سزا ہونے دیگی؟ 2۔ امریکہ اپنے اتحادی کو کیا تنہا چھوڑے گا؟
3۔ یہ پنڈورا باکس حد تک جائے گا؟
4۔ ملکی حالات کیا اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق دے گا مگر آئین کی بالادستی کبھی تو قائم کرنا ہو گی اور ہر ادارے کو اپنے دائرے اور حدود میں رہنا ہو گا۔ اس کے لئے بس ایک فیصلے کی ضرورت ہے!