کسب کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی

ڈاکٹر عامر عزیز مانے ہوئے اور جانے ہوئے آرتھو پیڈک ہیں۔ وہ بہت دردمند ہیں۔ فلاحی شخصیت اور دوست آدمی ہیں۔ زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ پاکستان کے سارے ڈاکٹرو۔ ایک بار ڈاکٹر عامر عزیز سے ضرور ملو۔ وہ ہڈیوں کے ڈاکٹر ہیں۔ بہت مشکل اور پیچیدہ آپریشن بھی کر لیتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں والے قابل رحم حالت میں کُبڑے اور ٹوٹے پھوٹے لوگ ڈاکٹر عامر عزیز کے پاس ریڑھیوں، رکشوں، چنگچی رکشوں اور غریبانہ گاڑیوں میں نہ جانے کس طرح لائے جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے قدموں پر چل کے جاتے ہیں۔ وہ حیرت سے کبھی اپنے آپ کو کبھی اپنے آس پاس کے لوگوں اور کبھی ڈاکٹر عامر عزیز کو دیکھتے ہیں۔ بڑے بڑے آپریشن کئے ہیں۔ ڈاکٹر عامر عزیز نے۔ انہوں نے بڑے بڑے کام بھی کئے ہیں۔ ہسپتال صرف عمران خان نے بنوایا ہے یہ بڑا کام عمران نے کیا ہے اگر وہ سیاست میں نہ آتے تو لوگ انہیں غیر متنازعہ محبوب آدمی سمجھتے مگر عمران نے بڑے آدمیوں والے کام کرنے کے بعد کہا میں بڑا انسان نہیں بنوں گا میں سیاستدان بلکہ حکمران بنوں گا، پھر ان کے خلاف ایسے ایسے  لوگوں نے باتیں کیں کہ جن کے اپنے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔ سیاست میں صرف باتیں ہوتی ہیں، یہ لوگ پہلے عمران کے حق میں باتیں کرتے تھے اب ان کے خلاف باتیں کرتے  ہیں، آدمی کوئی اچھا کام کرے تو لوگ اس سے محبت کرتے ہیں  سیاستدان حکمران اچھا کام کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں ایسا سیاستدان پاکستان میں کم کم ملتا ہے جس کی تعریف ہو سکے۔ حکمرانوں کی صرف خوشامد ہو سکتی ہے اور خوشامد جھوٹ ہوتا ہے سفید جھوٹ بلکہ کالا جھوٹ۔
ڈاکٹر عامر عزیز اپنی رہائی کے بعد سب سے پہلے توفیق بٹ کے ساتھ ڈاکٹر مجید نظامی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ نظریاتی گرفتاری کے بعد رہائی پر ایک بہت بڑی تقریب ڈاکٹر عامر عزیز کے اعزاز میں ’’ہم سخن ساتھی‘‘ کے زیر اہتمام ہوئی تھی صدارت نوابزادہ  نصراللہ  بابائے جمہوریت نے کی اور مہمان خصوصی جناب مجید نظامی تھے۔ آج کل نظامی صاحب  کو  ڈاکٹر مجید نظامی کہتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔  ڈاکٹریٹ  کی ڈگری ان کی بے مثال اور لازوال جرأت گفتار، جرأت کردار اور صحافیانہ خدمات کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے انہیں پیش کی تھی۔ نمائندہ صحافی مجیب الرحمان شامی نے اس موقع پر کہا تھا کہ یہ پنجاب یونیورسٹی کے لئے ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔گھرکی ہسپتال اور لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج گھرکی خاندان کا فلاحی کارنامہ ہے اس کا دور و نزدیک سے تعلق سیاسی گھرکی خاندان والوں سے ہے۔  وہ اس کا کریڈٹ لیتے ہیں شاید اس خدمت میں حصہ بھی لیتے ہوں انہیں زیادہ توجہ  دینا چاہیے۔  خاص طور پر ثمینہ گھرکی سے گزارش ہے کہ وہ اسے ذاتی ترجیحات میں رکھیں ایسے سیاستدان اور حکمران ذاتی اور کاروباری مفادات کو قومی معاملات سمجھتے ہیں ان کے نزدیک کاروبار زندگی  بھی ایک کاروبار ہے۔ وہ کاروبار عشق کو بھی کاروبار یعنی بزنس کی طرح چلاتے ہیں۔
ایک شخص محسن گھرکی ہے جو سیاستدان نہیں ہے۔ اس لئے ہمدرداور اچھا انسان ہے اب ایک زبردست ہسپتال میں ڈاکٹر عامر عزیز نے شاندار سپائن سنٹر بنایا ہے اس کے لئے زمین محسن گھرکی نے دی ہے اسے ڈاکٹر صاحب  نے سرزمین بنا دیا ہے۔  انہیں بہت سے مخلص اور محنتی ڈاکٹروں کی  رفاقت اور محبت حاصل ہے۔  عام طور پر  جونیئر ڈاکٹروں کی صحیح تربیت نہیں کی جاتی مگر ڈاکٹر عامر عزیز اپنی راہ پر چلنے والے سرجن ڈاکٹرز کا ایک کارواں تیار کر رہا ہے، پیر کارواں وہ خود ہے۔ بہت سارے صحافیوں کو برادرم توفیق بٹ  شہر سے بہت دور گھرکی ہسپتال لے گیا یہ لاہور شہر سے دور لاہور کی طرح دلکش اور دلفریب جگہ ہے جبکہ اب لاہور لاہور نہیں رہا ہے مگر یہ جملہ اب بھی بامعنی اور معنی آفرین ہے لہور لہور اے۔
سپائن سنٹر گھرکی ہسپتال کا سارا عملہ ہمارے انتظار میں تھا۔ وہ سب کے سب صحافیوں کے ہجوم میں شامل ہوگئے اس طرح یہ ہجوم عاشقاں بن گیا جیسے وہ بھی پہلی بار سپائن سنٹر دیکھنے چلے ہوں۔  ڈاکٹر عامر عزیز بہت منفرد اور ممتاز اور ماہر آدمی ہیں انہیں اپنا کام آتا ہے اور دوسروں کے کام آنا بھی آتا ہے۔ وہ امیر آدمی ہے مگر فقیر آدمی   ہے انہیں غریبوں سے محبت ہے ۔ سپائن سنٹر انہوں نے غریبوں کے لئے بنایا ہے جہاں امیر بھی علاج کرا سکتے ہیں جبکہ امیر آدمی غریب آدمی کا خیال نہیں رکھتے۔ امیر سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ملک میں غریبوں کا بُرا حال ہے۔ ذلت اور اذیت کے اندھیروں  میں وہ سسک سسک کر جی رہے ہیں۔
ایک اچھی خاصی تعداد میں لوگ اگلے لوگوں میں شامل ہو کر  ڈاکٹر عامر عزیز کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتے تھے وہ ڈاکٹر  جو ان کے ساتھ رہتے ہیں یہاں بھی ساتھ ساتھ رہنا چاہتے تھے۔  میں پیچھے پیچھے  تھا مجھے آگے آنے کی دعوت دینے والے خود بھی  کئی بار پیچھے رہ گئے۔ محسن گھرکی بھی ساتھ تھے مگر وہ درمیان میں تھے کئی جونیئر  ڈاکٹر میرے ساتھ  ساتھ چلنے لگے۔ ڈاکٹر مہران اور ڈاکٹر نسیم کے نام مجھے یاد رہ گئے وہ خاتون فزیوتھراپسٹ بھی بڑے جذبے کے ساتھ موجود تھی۔  میں نے ان کی موجودگی میں زیادہ آسودگی سے یہ عظیم الشان سپائن سنٹر دیکھا اتنی سہولت،  خدمت، علاج وغیرہ کا تصور کہیں نہیں ہو سکتا۔  ہسپتالوں کے خراب کئے ہوئے کئی مریض یہاں   سنبھالے  گئے اور خیریت سے اپنے گھر  بھجوائے گئے۔ یہاں  ویرانی حیرانی بن گئی  تھی۔  کشادگی اتنی تھی کہ ہر طرح کی کشیدگی ختم ہو گئی تھی، پھر  وڈیو کے ذریعے  ڈاکٹر عامرعزیز نے بریفنگ دی اور کمال کر دیا۔ ایسے ایسے مریض دکھائے کہ ان کی تصویر بھی دیکھی نہ جا سکتی تھی۔ انہیں تندرست کرنے کا ہُنر اللہ نے ڈاکٹر صاحب کو دیا ہے ان کی یہ تصویر دیکھ کر دل سنبھل گیا یہ سب غریب لوگ تھے ان کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ 
اپنی مدد آپ کے تحت یہ سپائن سنٹر بنایا گیا ہے یہ غریبوں کی بیماری ہے پورے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کے مناسب علاج کا انتظام  نہیں ہے غریب لوگ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب  نے زلزلہ زدگان کے لئے واحد سنٹر مظفر آباد آزاد کشمیر میں بنایا تھا غیر ملکی ڈاکٹروں نے کہا جو علاج انگلینڈ میں ہوتا ہے وہ یہاں  ویرانے میں ہو  رہا ہے۔ سپائن سنٹر کو دیکھ کر فخر ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ کچھ بھی کرنا چاہیں تو وہ کر گزرتے ہیں ابھی سپائن سنٹر کی تکمیل کے لئے بہت تعاون کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عامر عزیز کے سپائن سنٹر کے لئے اکاؤنٹ نمبر یہ ہے   Spine Center GTTH. H. B. L Bata pur 0522- 000738- 76- 03
کسبِ کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی
دنیا میں کوئی کام کر جاؤ ہنر مندیاور درد مندی کی خوشبو عام کر دو تاکہ تمہیں عزیز رکھا جائے، یاد کیا جائے اور دعا دی جائے۔ ڈاکٹر صاحب اب عزیز جہاں  کے مرتبے پر پہنچ چکے ہیں ان کی ٹیم بھی ایسے ہی خوبصورت جذبوں سے سرشار ہے اللہ انہیں سرخرو کرے۔  دنیا کا ہر آدمی ڈاکٹر عامر عزیز کا ساتھی بن سکتا ہے۔   

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...