اسلام آباد (بی سی سی ڈاٹ کام) سپریم کورٹ کے دباؤ اور پولیس کے ایک افسر کی کوششوں کے نتیجے میں لاپتہ افراد کے معاملے میں پہلی بار ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر کی اصل شناخت سامنے آئی ہے۔ اس افسر کو ایک شہری کے اغوا کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کی گئی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ میجر حیدر کے کوڈ نام سے مشہور ملٹری انٹیلی جنس کا افسر در اصل میجر محمد علی احسن ہے جو ان دنوں بلوچستان کے ضلع آواران میں تعینات ہے۔ ملٹری انٹیلی جنس سے مبینہ تعلق رکھنے والے میجر حیدر پر تاسیف علی کے اغوا کا الزام ہے تاہم گزشتہ ایک برس سے وزارت دفاع، فوجی صدر دفاتر اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کر چکے ہیں کہ اس نام کا کوئی افسر ملٹری انٹیلی جنس میں خدمات انجام نہیں دے رہا۔ ایک پولیس افسر کی ایک سال پر محیط انتھک کوششوں کے بعد بالآخر اس میجر حیدر کا بھانڈہ عدالت عظمیٰ میں اس وقت پھوٹا جب پولیس کے تفتیشی افسر نے دستاویزات، ہوائی جہاز کے ریکارڈ اور موبائل فون نمبر کے ذریعے ثابت کردیا کہ میجر محمد احسن علی ہی دراصل میجر حیدر ہیں۔ کسی جاسوسی ناول کا پلاٹ لگنے والی یہ کہانی ٹھیک ایک برس قبل راولپنڈی سے شروع ہوئی جب ڈاکٹر عابدہ ملک نے صادق آباد پولیس کو بتایا کہ ان کے شوہر تاسیف علی دو روز سے گھر نہیں لوٹے۔ ڈاکٹر عابدہ ملک نے بتایا کہ گھر سے غائب ہونے سے قبل انکے شوہر کی ٹیلیفون پر کسی سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ پوچھنے پر تاسیف علی نے بتایا تھا کہ وہ ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر سے بات کر رہے تھے جو انہیں دھمکا رہے تھے۔
سپریم کورٹ کا دبائو، افراد لاپتہ کرنے میں ملوث، ملٹری انٹیلی جنس کے افسر کی اصل شناخت سامنے آ گئی
Nov 21, 2013