اسلام آباد (وقائع نگار/ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں 54 ارب کے قرض معافی کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ سیاسی بنیادوں پر قرضہ معاف کرانے والوں سے رقم وصول کی جائے۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے 15 روز میں حکمت عملی بنائی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹس ملا وزارت فنانس سے رابطہ کیا ہے۔ یہ سن کر دھچکا لگا کہ کمشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رپورٹ کے 20 ٹرنک موجود ہیں، عوام کے اربوں روپے معاف کئے گئے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے استدعا کی کہ 15دن کا وقت دیا جائے جس پر سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قرضوں کی پالیسی میں کئی سقم ہیں، زیادہ تر قرضے سیاسی بنیادوں پر دیئے گئے۔ ضرورت ہو تو معاف کرائے گئے قرضوں کی وصولی کیلئے عارضی قانون سازی کر لی جائے۔ سماعت کے موقع پر جوائنٹ سیکرٹری تنویر بٹ نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ قرضوں کے حوالے سے مقرر کمشن کی رپورٹ کا ابھی تک کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیسہ عوام کی جیب سے گیا اس لئے کسی کو فکر نہیں۔ کمشن نے فروری میں رپورٹ دی، 9 ماہ گزرنے کے باوجو د بھی اس کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس افسر کا نام بتائیں جس نے کمشن رپورٹ دیکھی مگر اس پر کام نہیں کیا۔ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے کمشن رپورٹ آنے کے بعد سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ سے رابطہ کیا تھا مگر وزارت خزانہ نے رپورٹ کی روشنی میں عدالت کے لئے جامع رپورٹ کی تیاری کیلئے ایک ماہ کا وقت مانگا تھا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ کمشن آنے کے باوجود قرضوں کی وصولی کیلئے کوئی طریقہ کار طے نہیں ہوا، رپورٹ پر عملدرآمد کیا ہو گا۔ عدالت نے مذکورہ احکامات جاری کرتے ہوئے مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔
قرضے/ کیس
چیف جسٹس /قرضہ معافی