جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ

جنرل راحیل شریف کا امریکہ کا سرکاری دورہ 2010ء کے بعد کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے جو اقتصادی اور عسکری اعتبار سے بیرونی دنیا اور خصوصاً امریکہ پر بہت انحصار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسی بھی سیاسی یا عسکری لیڈر کا امریکہ کا دورہ ہمارے لئے بہت اہم ہوتا ہے لیکن راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کی نئی بات یہ ہے کہ اس میں امریکی حکمرانوں اور میڈیا نے اس دورے کو پذیرائی دی اور نہ صرف بہت مثبت انداز میں حوصلہ افزا بیانات دئیے بلکہ جنرل راحیل شریف کو لی جن آف میرٹ امریکی ایوارڈ بھی دیا۔ اسکے علاوہ امریکی سینٹ کی خارجہ کمیٹی نے ضرب عضب کی تعریف کی۔
قارئین امریکہ کے رویے میں اس خوشگوار تبدیلی کی چند وجوہات ہیں؛۔ پہلی یہ کہ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم تو نہیں کر رہا لیکن اس کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ افغان قوم پر کسی بھی بیرونی طاقت کا مسلط رہنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا جو اب جزوی ہی سہی دو سال کے بعد مکمل ہو جائیگا۔ امریکہ کو یقین ہے کہ افغانستان سے اسکی افواج کے انخلا اور اسکے بعد کی صورتحال کو پُرامن بنانے کیلئے پاکستان کی حکومت اور اسکی افواج ایک بہت مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ترجیحات میں اب امریکہ مشرق وسطیٰ کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے اس لئے سٹرٹیجک سنٹر آف گریویٹی اب جنوب ایشیا سے شفٹ ہو کر مشرق وسطیٰ اور یوریشیا میں یوکرائن کی طرف جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا دیدہ دانستہ جھوٹا بہانہ گھڑ کر جنگ کے شعلے بھڑکائے جنہوں نے اب عراق، شام اور لیبیا سمیت سب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ قذافی کے نیچے لیبیا خوشحال تھا، صدام حسین کی حکمرانی میں عراق شیعہ سُنی اور کردوں کی آبادی کے باوجود پُرامن تھا اور شام میں حافظ الاسد اوربشار الاسد کے دور اقتدار میں خانہ جنگی کا کوئی دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کا قصور یہ ہے کہ یہ براعظم افریقہ کے ممالک کی طرح بھوک اور افلاس کا شکار نہیں۔ اِنکے آنگنوں میں تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر ہیں۔ آج سے سو سال پہلے کی طرح اگر یہ اب بھی غریب ممالک میں شمار ہوتے تو ان کو بھی ایبولا جیسی مہلک بیماریوں اور مختلف ڈکٹیٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ سوڈان کے جنوبی علاقے میں تیل برآمد ہوا تو وہاں بھی مداخلت ہو گئی اور ملک کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا۔ نائیجریا میں بھی معدنی وسائل کی موجودگی کی وجہ سے علیحدگی پسند تنظیمیں بیرونی امداد کے بل بوتے پر برسر پیکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی نگاہ میں اب مشرق وسطیٰ AFPAK سے زیادہ اہم تھیٹر آف اپریشن ہے اس لئے افغان محاذ پر اب ماضی کی تلخیاں بُھلا کر امن کا ماحول پیدا کرنے کیلئے پاکستان جیسے اہم ملک کی افواج کو دہشت گردوں کو پناہ دینے والے اقدام جیسا زہر آلود پراپیگنڈہ چھوڑ دیا گیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ امریکی ایڈمرل میک ملن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ آئی ایس آئی اور دہشت گردوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بہرحال ہم امریکی رویے میں مثبت تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ماضی کا امریکی رویہ اور ایبٹ آباد، سلالہ اور ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات کی وجہ سے خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ امریکہ پاکستان کو آج اچھا کہہ رہا ہے تو اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ہمارا صحن اب صاف ہے۔ ہمیں ملک کے اندر فرقہ واریت، دہشت گردی اور لاقانونیت کے پھوڑوں کا علاج کرنا ہو گا۔ جنرل راحیل شریف کے امریکی دورے کے دوران امریکی حکومت کے مثبت رویے کی ایک بڑی وجہ پاکستانی فوج کے اپریشن ضرب عضب کی شاندار کامیابی بھی ہے۔ امریکی فوج افغانستان کے جن علاقوں میں فیل ہوئی اس سے بھی مشکل ترین علاقوں میں پاکستان فوج نے 2000 دہشت گرد ہلاک، 39 اسلحے کی فیکٹریاں اور ایک لاکھ ٹن گولہ بارود قبضے میں لیکر دہشتگردوں کے 200 اڈے تباہ کر دئیے۔ اس کا اعتراف امریکی سینٹ کے علاوہ افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈر جنرل جوزف، افغانستان کے اُن صوبوں کی حکومتوں نے جو پاکستانی سرحد کیساتھ واقع ہیں اور خود امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور CENTCOM کمانڈر نے بھی کیا ہے۔ اس اپریشن کا سہرا جنرل راحیل شریف کے سر پر ہے جنہوں نے نہایت جرأت سے جلد فیصلے کئے اور ایک ایسے اپریشن کو کامیاب بنایا جس کو امریکہ سمیت ساری دنیا مشکل ترین سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے جنرل راحیل کو وہ فوجی ایوارڈ دیا جو وہ بہترین کارکردگی پر سینئر کمانڈروں کو دیتے ہیں۔ امریکہ کی عسکریت پسند خارجہ پالیسی نے جہاں دنیا کا امن تباہ کیا ہے وہاں خود امریکہ کی ساکھ اور معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو وہ بُش اور اوباما سے ضرور پوچھے گا کہ عراق اور افغانستان کی جنگ پر 4.4 ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے کے بعد امریکہ نے کیا حاصل کیا۔
18 نومبر کے برطانوی اخبار گارڈین نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ سال 2000 ء میں دہشت گردی سے عراق اور افغانستان سمیت سارے علاقوں میں 3361 لوگ ہلاک ہوئے، 2012ء میں ہلاکتوں کی تعداد 11133 تھی اور 2013ء میں 17958 لوگ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پچھلے عشرے میں دہشتگردی سے ہلاکتوں میں 60 فیصدی اضافہ ہوا ۔ عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان تیسرا ملک ہے جو دہشت گردی کا بدترین نشانہ بنا۔ اسکے علاوہ امریکہ کے ہی ایک لیفٹیننٹ جنرل ڈینیل پی بولگر نے ریٹائر ہونے کے بعد ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے "Why we  lost" یعنی ہمیں افغانستان اور عراق کی جنگ میں کیوں شکست ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل بولگر خود ان دونوں محاذوں پر اہم فرائض سرانجام دیتا رہا۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں یہ اس لئے کر رہا ہوں کہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کو کھل کر سامنے لانا چاہئے تاکہ مستقبل کیلئے ہم کوئی سبق سیکھ سکیں۔ برطانوی لیڈر سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ امریکی آخر میں صحیح فیصلہ ضرور کرتے ہیں لیکن پہلے سارے غلط اقدام اٹھانے کے بعد۔
حالیہ دور میں امریکہ کی بیرونی دنیا میں مداخلت کے چار انداز تھے؛۔ پہلا تو براہ راست حملہ ،جیسے افغانستان اور عراق پر کیا گیا۔ دوسرا ڈرون حملے، جیسے پاکستان اور یمن پر ہوئے اس میں زمینی افواج کا استعمال نہیں۔ تیسرا پراکسی جنگ کو حکومتوں کیخلاف ہَوا دینا، جیسے شام، لیبیا اور یوکرائن میں ہوا۔ چوتھا معاشی ناکہ بندی سے ممالک کو مفلوج کرنے کی کوشش۔ اس کا شکار شروع میں عراق ہوا، پاکستان پر بھی پابندیاں لگیں، ایران اس کا بدترین شکار ہوا۔ اب یہ حملہ روس پر جاری ہے۔
دنیا کی اس زہر آلود فضا میں پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا امریکہ کا پہلا آفیشل دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس میں یقیناً جنرل راحیل نے عسکری اور سیاسی رہنمائوں سے اپنی ملاقاتوں میں مندرجہ ذیل اہم مقاصد کو ذہن میں ضرور رکھا ہو گا: -1 پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کے مسئلہ پر پیدا ہونے والی بے اعتمادی کی فضا کو ختم کرنا اور یہ یقین کروانا کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروپ کے ساتھ نہیں، ہمیں صرف اپنے قومی مفادات عزیز ہیں جن کا دفاع ہر ملک کا حق ہے۔ -2 افواج پاکستان کو دنیا کی ایک بہترین پروفشنل لڑاکا فوج بنانے کیلئے نہ صرف امریکہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول بلکہ ہمارے ہوائی اور بحری جہازوں، آبدوزوں، ہیلی کاپٹروں اور بکتر شکن میزائلوں کے فالتو پرزوں کی ترسیل کو یقینی بنانا۔ امریکہ سے جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول کی بات چیت کرنا اور پاکستان فوج کی نائٹ فائٹنگ اور سائیبر وار کی استطاعت میں اضافہ کرنا -3 امریکہ کو اس بات کی یقین دہانی کروانا کہ پاکستان کے عسکری ادارے کسی طرح سے بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے پابند ہیں لیکن ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ہندوستان پاکستان کیخلاف گھیرا ڈالنے کیلئے افغان سرزمین کو استعمال کرے -4 آخری بات یہ کہ ہماری مشرقی سرحد پر ہندوستان کی حالیہ جارحیت سے پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ ہندوستان کیساتھ دیرپا امن کی کنجی کشمیر میں ہے۔ امریکہ اسکی حقیقت سے آنکھیں نہ چرائے۔

ای پیپر دی نیشن