چار سابق ڈرون آپریٹرز نے کہا ہے کہ امریکہ کے دنیا بھر میں مشتبہ جہادیوں پرڈرون حملوں سے مزید انتہا پسندی نے جنم لیا ہے۔ صدر اوباما، وزیردفاع ایشٹن کارٹر اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن کے نام کھلے خط میں انہوں نے کہا کہ وہ بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں اور انہیں سخت ذہنی دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا ہے۔
جنگ دشمن کو نیست ونابود کرنے کا نام ہے مگر جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ڈرون ان ممالک ہی کےخلاف استعمال ہوسکتے ہیں جس کے ساتھ اعلانیہ جنگ جاری ہو۔امریکہ پاکستان ،یمن اورافغانستان میں بھی ڈرون استعمال کررہا ہے جبکہ اسکی طرف سے ان ممالک ساتھ وہ جنگ کی حالت میں نہیں ہے ۔پاکستان تو اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر اسکی منظوری کےخلاف حملے کئے جاتے ہیں جس پر پاکستان نے کئی بار شدید احتجاج کیا مگر امریکی رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ان حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت بے گناہ افراد بھی لقمہ اجل بنتے رہے ہیں جس کے ردعمل میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔اپریٹر بھی یہ کہتے ہیں کہ بے گناہ شہریوں پر ڈرون حملوں سے نفرت پیدا ہوئی اور اس سے داعش جیسے گروپوں کو تقویت ملی۔امریکہ اپنی پالیسیاں اور حکمت عملی تبدیل کرے جس کی وجہ سے وہ نفرت کا نشانہ بن رہا ہے،اسے ڈرون حملے مستقل طور بند کردینے چاہئیں۔
امریکی اپریٹرز کی بھی ڈرون حملوں کی مخالفت
Nov 21, 2015