جس کی نیتوں میں فسق و فجور اور ظلم وسفاکیت کی کوئی حد وانتہا نہ ہو ملکوں ملکوں وہ مہذبانہ تہذیب کا تنہا دعویدار بن کر انسانی حقوق اور آزادی کا بپتسما دینے والا خود کو چمپئین کہلوانے لگے کبھی ویت نام میں‘ کبھی دنیا کے کسی بھی کمزور ملک میں ‘ مثلاً افغانستان میں یا عراق میں انسانی حقوق کی بحالی کا عَلَم بردار بن کر اگر وہ عوام کے حقوق کی بحالی کو یقینی بنا نے کا نعرہ لگائے آزادی کا حق عوام کو دلوا نے کی بات کرے کہ اُسکی انسانی حقوق کی علمداری میں کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ کوئی دوسر ا ’ظالم وجابر‘ حکمران اُن پر اپنا تسلط قائم کر لے گا جبکہ اصل حقیقت میں ایسا سب کچھ وہ عوام کو آزادی دلوانے کے نام پر اُن کی بنیادی آزادی کو ہی سلب کر لے، تو ایسی قوموں کو کس بلا و ابتلا کی کٹھن مشکلات کے قہر زدہ چنگل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، افغانستان اور عراق جیسے مسلم کمزور ملکوں پر امریکہ نے تباہ کن بارود کی بارشیں برس کر اپنے غیر اخلاقی وغیر انسانی مفادات ‘ بے پناہ طمع اور انسانیت دشمنی کی کینہ پروری کی جو بہیما نہ و خون آشام تاریخ 9/11 سے 26؍ نومبر 2011 تک رقم کی ہے آہ سے نہ لٹے پٹے افغانی فراموش کر سکتے ہیں نہ عراقی عوام بھول سکتے اور ناہی خاص طور پر ہم پاکستانی مسلمان یہ سب کچھ بھلانے کیلئے کبھی تیار ہونگے افواہ! یہ بھی کیا طرفہ تماشا تھا ہم امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے خود اِس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے اِس جنگ کے شروع ہونے سے قبل امریکیوں اور ہمارے درمیان کوئی ثقافتی یا سماجی عہد وپیمان کبھی نہیں ہوا اِسکے باوجود ہم نے ہمیشہ امریکیوں کو اپنا ’دوست‘ سمجھا مگر‘ امریکیوں نے ہم (پاکستان) سے زیادہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہم پر تر جیح دی اور ہمیں ہمیشہ تیکھی اور بے اعتمادی کی نظروں سے دیکھا ہمارے بھروسہ اور اعتماد کو جتنی ٹھیس امریکہ نے پہنچائی دنیا میں شاید ہی قوموں اور ملکوں کی سفارتی تاریخ میں بے وفائی اور بد عہدی کی ایسی مثال کہیں کسی نے دیکھی ہوگی 2001میں9/11 کے بعد اقوام ِ متحدہ کی نگرانی میں امریکہ نے جو ’عالمی اتحاد ‘ کی شکل میں نیٹوا فواج کی صورت میں جو ’عالمی لشکر ‘ تشکیل دیا جس کی سربراہی خود اُس نے اپنے ہاتھ میں رکھی اور پھر اس ’عالمی لشکر ‘ نے افغانستان پر یکایک حملہ کردیا اور کئی برس تک وہاں یہ فوج افغان مزاحمتی گرو پوں سے سے لڑتی رہی کامیابی تو رہی ایک طرف صرف ناکامی ہی نہیں بلکہ عبرتناک پسپائی کمانے کے علاوہ امریکہ افغانستان کے علاقوں میں اور کچھ نہیں کرسکا پاکستان کی مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں امریکہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نیا نہیں تھا کئی بار پہلے بھی اُسے ایسی عالمی شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا ہے اُسے ہمیشہ پاکستان سے یہ گلہ اور شکایت رہی کہ پاکستان نے اتحادی حلیفوں کا حصہ بننے کے باوجود عملاً افغانستان کے اندر اپنی فوج نہیں بھیجی ۔
پاکستان کیخلاف امریکی معاندانہ تپش وقت کیساتھ اور زیادہ سلگتی چلی گئی وہ پاکستان کیخلاف دیدہ دلیری کی جنونی خون آشامی میں حد سے اتنا آگے بڑھ گیا کہ 26 ؍ نومبر2011 کی ایک شب کو افغانستان میں تعینات نیٹو کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کو لیکر پاکستان کی سرحدی خود مختاری کی اور بین الااقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے مہمند ایجنسی کی تحصیل بائیزئی کے سرحدی علاقہ ’سلالہ‘ میں پاکستانی سیکورٹی فورسنز کی تین سرحدی چیک پوسٹوں پر بلا اشتعال حملہ کردیا گیا جسکے نتیجے میں پاک فوج کے ایک دلیر میجر ‘ ایک جواں ہمت کیپٹن سمیت 25 سرفروش جوان شہید اور 15 شدید زخمی ہو گئے، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے نے امریکی حکام سے اِس انتہائی سنگین واقعہ پر اپنا پُرزور شدید احتجاج ریکارڈ کرایا یقیناً پاکستانی عسکری قیادت کیمطابق مہمند ایجنسی میں نیٹو کا یہ فضائی حملہ کسی قسم کی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا دشمن پرستی پر مبنی جار حانہ منصوبہ تھا پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملوں میں جیٹ طیارے بھی شریک تھے جیٹ فائٹرز اور ہیلی کاپٹر کبھی غلطی سے حملہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سوچی سمجھی خفیہ بڑی بہیمانہ کار گزاری تھی، نیٹو اور ایساف فورسنز کے ہیلی کاپٹر پاکستانی سرحد کے اندر گھس آئے اور مہمند ایجنسی کی تحصیل بائیزئی میں سیکورٹی فورسنز کی تین چیک پوسٹوں‘ سلالہ‘ دال چلو اور بولڈر چیک پوسٹوں پر اندھا دھند شیلنگ کی جس کے نتیجے میں میجر مجاہد‘ کیپٹن عثمان سمیت 25 اہلکار شہید اور15 زخمی ہو گئے، پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد نیٹو اور ایساف ہیلی کاپٹر کافی دیر تک علاقے میں موجود رہے، پھر واپس افغانستان کی طرف چلے گئے ،حملے کے فوراً بعد امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں زخمیوں کو فوری طور پر غلنئی ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، پاکستانی قوم نے سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے اِس وحشیانہ و بہیمانہ حملے پر اپنے سخت ردعمل کا بھرپور اظہار کیا سیاسی و عسکری قیادت نے اپنی سخت پیشہ ورانہ برہمی سے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان سے جانے والی نیٹو ایساف سپلائی مکمل طور پر بند کر دی جائے اور جیکب آباد کے شمسی ائر بیس کو امریکہ سے فی الفور خالی کرانے کیلئے 15 دن کا نوٹس دیدیا جائے اِسکے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ سے اپنے سفارتی تعلقات اور دہشت گردی کیخلاف جاری اِس عالمی جنگ میں شرکت کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں کیونکہ یہ کوئی ذاتی نہیں‘ بلکہ قومی مفاد کی پہلی ترجیح کا فیصلہ تھا 2001 کے 9/11 سے اب تک گزرے 14 برس گزر چکے اِس دوران امریکی طرز عمل کا ایک سرسری ساجائزہ لیں تو پاکستان کے ساتھ وہ کتنا مہربان دوست رہا اور کس قدر اُس نے پاکستان کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی مذموم کوشش کی ہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی اور خفیہ معلومات نہیں امریکہ کیلئے یہ کتنی بڑی بدقسمتی کی بات ہے پاکستان نے جسے ہم آج اگر ’مبینہ دہشت گردی ‘ کیخلاف عالمی جنگ کا نام دیں تو بہت سے قارئین ہم سے متفق ہونگے پاکستان نے فرنٹ لائن سٹیٹ کی حیثیت سے امریکہ پر اعتماد کیا اوروہ ہمیشہ ہم ہی سے ’ڈومور‘ کا تقاضا کرتا رہا ہے، نہیں جناب یہ انصاف کی بات نہیں ’سلالہ‘ چیک پوسٹوں کے شہداؤں کو ہم پاکستانی نہیں بھول سکتے اور امریکی مفادات ہماری نظروں میں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔