عارضی اقدامات پر ٹیکس نظام معیشت میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے ۔ آئندہ ”4 سالوں“ میں بیرونی قرضے ”111 ارب ڈالر ہونے کا خدشہ(60-70 ارب ڈالر تو ہو چُکے ہیں ) بچتیں بڑھائی جائیں ۔ ”سٹیٹ بینک“ سار ا دن خبریں ۔ ٹِکرز چلتے رہے ۔ مغلیہ راج کو شرماتے پر تعیش انتظامات۔ شاہی کھانوں کی لمبی چوڑی لِسٹ ۔ ”مہمان خصوصی میاں بیوی“۔ مدعوئین300"۔ 10" ”دُنبے“ بطور خاص ”ڈی جی خان“ سے منگوائے گئے ۔ برسوں سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتا شہر ۔ اضافی رنگ برنگی آرائشی لائٹوں۔ دیو قامت ہورڈنگز سے چمکتا ۔ دمکتا ۔ ”بچتیں بڑھائی جائیں“کی ہدایت کا مرقع بنا نظر آرہا تھا ۔ تمام مرکزی شاہرائیں بند ۔ اہل لاہور سارا دن”پاک ترک ذاتی دوستی“کا عذاب سہتے رہے ۔ محفل موسیقی بھی جائز ٹھہری کیونکہ سرحدوں پر جاری موسیقی کی لہریں میرے ۔ آپ کے گھر کے اندر داخل نہیں ہورہیں ۔ یقینا دورہ خصوصی مقاصد لیے ہوئے تھا جو آنے والے دنوں میں آشکار ہونگے ۔
تجزیے ہو رہے ہیں کہ صرف ”لاہور“ لانے کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے ۔ ذاتی تعلقات کو قومی خزانہ کے ذریعہ پروان چڑھانے کی رِیت بہت مضبوط ہو رہی ہے۔" ترک صدر "کے استقبال کے لیے ”5 لاکھ“ کی شیروانیاں خرید کر ملازمین کو پہنائی گئیں ۔ کِسی ملک کا صدر آرہا تھا یا ”بابائے قوم“ ؟ دو ملکوں کے مابین تعلقات ریاستی سطح پر اُستوار ہونے چاہیں نہ کہ شخصیات کے لیول پر ۔ خیر ذاتی مراسم بھی اگر ہم چاہیں تو بہت مثبت ترقی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ مزید براں آئندہ کے لیے معمول بنالیں کہ ہر صوبائی دارالحکومت لیجانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس بہانے دوسرے شہروں کی گندگی بھی دُھل جائے گی ۔ ضعیف العمری ۔ چلنا دشوار۔ خبر ملتے ہی سکیورٹی حصار فراہم کر دیا۔ ” اُس شخص“ کو جو چند گھنٹوں قبل اپنے بنگلہ میں پُر سکون سکونت پذیر تھا ۔ اگلے دن گاڑی سے نیا فرنیچر اُترتے اور رہائشی حصہ کے اردگرد صفائی ہوتے دیکھی ۔ پوش علاقہ ۔ وسیع و عریض بنگلہ ۔ کیا فرنیچر سے خالی تھا ؟ کیا صفائی صرف اُس علاقہ کا مقدر ہے جہاں کا باشندہ ”وی ۔ وی ۔ آئی ۔ پی“ بن جائے ؟۔قرضوں کے بوجھ میں دبی سانسوں کو دل سے سُنتے ہوئے سوچیں ۔ ظلم ہے بے انتہا ظلم ۔ مُشترکہ اجلاس سے خطاب ۔ کروڑوں کی آرائش ۔ وصول کیا ہوا ؟ ہم اتنے نا اہل ہیں کہ کُوڑا اٹھانے سے لیکر سڑکیں بنانے تک کے ٹھیکے بیرونی ہاتھوں میں دیدئیے ۔ ہمار کُوڑا ہمارے پیسوں سے اُٹھانے والے ہمارے معاملات میں حد سے زائد مداخلت کیوں کر رہے ہیں ۔ سب نہیں صرف ایک ”سکولز“ کو ہی لے لیں ۔ آج ”اردگان“ ہیں احترامِِ حکم ۔ عملہ ڈی پورٹ ۔ کل کوئی اور حکمران بن گیا تو ؟”ملک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے“
سی پیک سے ملک کا نقشہ بدل رہا ہے ہم نے جو کہا کر دکھایا ۔ لوڈ شیڈنگ2018 تک دفن ہو جائیگی ۔ ملک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب کے ساتھ جُڑی”نیپرا رپورٹ“۔ ناقص ٹرانسمیشن سسٹم باعث2018 میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکے گی ۔”14 سال“ سے یومیہ”10“۔ کچھ علاقوں میں”18 گھنٹے“ لوڈشیڈنگ جھیلتے عوام2018 میں بھی اِس عذاب سے چھٹکارہ نہیں پا سکیں گے ۔
سوال ہے جامع ٹھوس معلومات کے بغیر اعلانات کا مقصد ؟ اب چلتے ہیں ترقی کی بلندیوں کی طرف ۔ پختون خواہ میں غذائی قلت باعث ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ۔ غذائی قلت کا شکار تھرپارکر ۔ موت نے مزید4بچے نگل لیے ۔ ترقی کی بلندیوں کو چُھوتے ملک کے وہاڑی نامی شہر میں واٹر مینجمنٹ کا کنٹریکٹ ملازم تنخواہ بند کرنے کا صدمہ برداشت نہ کر سکا ۔ دل بند ہوگیا ۔ صدمہ سے دادی بھی چل بسی ۔ ترقی کی بلندیوں کو چھوتے اِس ملک کے دوسرے شہر ”نوشہرہ ورکاں“ کا نائب قاصد ”5 ماہ“ سے تنخواہ بند کا دُکھ لیے دل کے ہاتھوں چل بسا۔
تیز رفتار ترقی کا یہ عالم کہ دو ہفتے میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ”30 فیصد“ اضافہ ہونے کی خبر پر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ غفلت ہر اُس طرف سے جو عوامی پسماندگی ظاہر کرتا ہو ۔ قیمتیں بڑھنے کی خبریں ترقی کی علامت ہیں اسلیئے کنٹرول کیوں کریں ۔ ترقی صرف اناج۔ پانی میں نہیں ۔ موذی بیماریوں کے شکار غریب ۔ لاچار مریضوں کو زندگی کی چند سانسیں بڑھاتی۔ کچھ اُمید دلاتی ادویات کی قیمتوں 2.8 فیصد اضافہ کر دیا گیا ۔ نو تشکیل شدہ ”ڈرگ رجسٹریشن بورڈ“ نے پہلے اجلاس میں عوام کی بجائے انٹرنیشنل اددیہ ساز کمپنیوں کا مفاد مقدم جانا ۔ ہفتہ میں ”2,3 دن“ وزیراعلیٰ پنجاب ہسپتالوں اور ادویات کے معاملات بہتر بنانے کے طویل اجلاسوں کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے ہیں مگر عوام کے خادم اور خادموں کے ماتحت سبھی ”چُونا“ لگانے میں مشغول ہیں ۔ حکومتی احکامات پر عمل درآمد بیوروکریسی کا کام ہے مگر اُس کی توجہ کام کی بجائے اضافی مراعات لینے پر مرکوز رہتی ہے ۔ شکوہ ہے نہ ناشکری کرنا مقصود شاہرات کی تعمیر اور ترقی بچپن سے مرغوب منظر رہا ہے مگر کچھ اصول قواعد کے ساتھ ۔ مسائل کے حل میں ترجیحات کو اول نمبر میں رکھا جاتا ہے ۔ معاشی تحفظ ۔ تعلیم و صحت ترجیحی لِسٹ میں شمار ہوتے ہیں مگر کچھ منصوبے شہر کے دو مختلف حصوںسے ایسے شروع ہوئے کہ اب کام رُکا ہوا ہے ۔ اربوں روپے کے فنڈز خرچ کرنے کے باوجود تعلیم و صحت کے فنڈز کی کٹوتی کرکے ”مالٹا ٹرین“ کو مزید 5 ارب روپے کا قرضہ دیدیا ۔ اب سنگ بنیاد رکھ دیا تو بنانی ہے ۔ واقعی درست فرمایا کہ ”ہم نے جو کہا کر دکھایا“۔ ”ہمارا تو دل ٹوٹ گیا“
تصویر کیا چھپی کہ لاتعداد فون کالز ۔ پیغامات کا تاننا بندھ گیا ۔ کِسی نے دل گرفتگی کا اظہار کیا تو کِسی نے مایوسی کا ۔ بہت سوں نے تو سب مِلے ہوئے ہیں کہہ کر ورق پھاڑ دیا۔ ”عوام اور فوج“ تو ایک صفحہ پر ہیں ۔ پھر یہ کیسے ہو گیا ۔ عوام ”یک نکاتی ایجنڈہ“ پر ہیں کہ کرپشن جہاں بھی ہے۔ ذمہ داروں کو بلا تفریق عہدہ گرفت میں لایا جائے ۔ اِس تصویر سے تو”ایک صفحہ“ کئی جگہوں سے پھٹ گیا ۔ بہت سوں کے تبصرے سننے کو مِلے کہ اِس ملک کے حالات نہیں بدلنے والے ۔ تسلی دیتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ پروٹوکول کا ایک حصہ ہونے کے علاوہ ریاستی منصب کا احترام بھی ہے ۔ دو سال پہلے ”گوادر شاہراہ“کے افتتاح کے موقع پر بھی”آرمی چیف نے وزیر اعظم“ کو ساتھ بٹھا کر جیپ ڈرائیو کی تھی ۔ وجہ تنازع کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ بلند آہنگ لہجے میں تحمل۔ برداشت ۔ مِل جُل کر چلنے کی فکری لہریں اُبھارنے والے دل سے کیوں متمنی ہیں کہ اداروں کے مابین ٹکراوٰ کی کیفیت کبھی ختم نہ ہو۔ فساد پھیلانے والے اتنے مشتعل کیوں ہو گئے؟ صرف اپنی تسکین کے لیے ؟ اینڈ ۔حاصل کلام۔ عوام ”شہ سُرخی“کی بجائے مبنی بر انصاف فیصلہ کے متمنی، خواہاں ہیں ۔