سیاسی ہیجان خواہ وہ دُنیا کے کسی بھی ملک میں برپا ہو، ریاستی اور معاشرتی معاملات کے حوالے سے نمودار ہوتے قطعاََ نئے رویوں اور حقائق کااظہار ہوتا ہے۔روس کا صدر پیوٹن،ترکی کے ”سلطان“ اردوان،بھارت کا نریندر مودی اور امریکہ میں ٹرمپ کا صدر منتخب ہوجانا،بنیادی طورپر تنگ نظر قوم پرستی کی بنیاد پر ریاستوں کے لئے ”مردِآہن“ کو ناگزیر ٹھہراتے رویوں کا اظہار ہیں۔
صدیوں تک پھیلے نظریاتی مناقشات اور عالمی جنگوں کے بعد قائم ہوئے جمہوری اداروں نے اس سوچ کو لیکن یورپ میں ابھی تک پروان چڑھنے نہیں دیا۔ برطانیہ یورپی یونین سے باہر تو آگیا ہے مگر اپنے ملک میں ایسا ”مردِ آہن“ پیدا نہیں کر پایا جو اس ملک کو صرف گوری چمڑی والے Anglo-Saxonلوگوں کے لئے مختص کردے ۔ ہالینڈ اور فرانس میں بھی قوم پرستی فسطائی روپ اختیار نہیں کر پائی اور جرمنی نے ایک بار پھر قدامت پرست خاتون رہ نما کو اپنا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔
سامراج کی غلامی سے آزاد ہوئے ممالک میں جنہیں کبھی ”تیسری دُنیا“ کہا جاتا تھا”تبدیلی“ کی خواہش اب بہت شدت اختیار کررہی ہے۔ عرب اور افریقی ممالک نے اس خواہش میں برسوں سے آمرِمطلق بنے حسنی مبارک اور کرنل قذافی سے ”عرب بہار“ کی بدولت جان چھڑائی۔ مصر مگر جمہوی نظام کو ہضم نہیں کرپایا۔ آنے والی تھاں پر واپس آچکا ہے۔ لیبیا بہت ہی کم آبادی اور تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود قذافی کے بعد سے کوئی ریاستی بندوبست تشکیل نہیں دے پایا ہے۔ مستقل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ شام کا بشارالاسد طویل خانہ جنگی کے باوجود اپنی جگہ قائم ہے اور روس اور ایران کی مہربانیوں سے ایک بار پھر کسی نہ کسی صورت استحکام کی طرف لوٹ رہا ہے۔
امریکہ کا ایک بہت ہی ذہین سیاسی تجزیہ کار تھا۔ Samuel P Huntingtonاس کا نام ہے۔ 1993میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ سردجنگ کی بدولت سوویت یونین اور اس کے بنائے اور پھیلائے نظریے کو شکست دینے کے بعد امریکی قیادت میں سرمایہ دارانہ نظام اب ”اسلامی انتہا پسندی“ کو اپنا دشمن نمبرایک شمار کرے گا۔ وہ کئی حوالوں سے درست ثابت ہوا۔ اگرچہ ”اسلام بمقابلہ جدید سرمایہ دارانہ نظام“ والی اس کی تھیوری علمی اعتبار سے کافی سطحی اور کھوکھلی ہے۔
اسی Huntingtonنے مگر یہ بات بھی کہی تھی کہ جدید تعلیم اور ذرائع ابلاغ تک بے پناہ رسائی کی وجہ سے دُنیا بھر کے نوجوانوں میں سیاسی حوالوں سے ”کچھ نیا“ دیکھنے کی تڑپ پیدا ہورہی ہے۔ اشرافیہ نے ازخود سیاسی بندوبست کو بدلنے کے انتظامات نہ کئے تو ان کے معاشروں میں ہیجان وخلفشار بڑھتا چلا جائے گا۔
Huntingtonکی اس تجویز کو کئی ممالک کی اشرافیہ نے شعوری یا غیر شعوری طورپر اپنالیا ہے۔ ”ادارے“ ہر ملک میں Status Quoکے حتمی محافظ ہوتے ہیں۔ ہماری عدلیہ نے مگر خود کو ”کرپشن“ کے خلاف بھرپور اقدامات لینے میں ملوث کیا۔ عسکری قیادت نے کراچی کو بھتہ خوروں سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں کی جانب سے اٹھائے غیر معمولی اقدامات مگر ”تبدیلی“ کو Top Downطریقے سے متعارف کروانے کی کوششیں ہیں۔ یہ کوششیں احتسابی عمل کو Selectiveبنادیتی ہیں۔ ریاستی ڈھانچے کو انقلابی انداز میں تبدیل کرنے کی بجائے ”سرجری“ اور ”مرہم پٹی“ جیسے انتظامات معاشرے کو بلکہ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔
فی الوقت پاکستان مگر میرا موضوع نہیں ہے۔ذکر افریقہ کے جنوب میں واقع ایک ملک زمبابوے کا کرنا ہے۔ جسے میرے بچپن میں رہوڈیشیا کہا جاتا تھا۔کبھی یہ ملک برطانیہ کی نوآبادی ہوا کرتا تھا۔ سامراج نے اسے آزاد کروانا چاہا تو وہاں کی سفید فام اقلیت نے Ian Smithکی قیادت تلے جمع ہوکر ایک نسل پرست حکومت قائم کردی۔ مقامی باشندوں کو طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 1980میں ”حقیقی “آزادی نصیب ہوئی۔”حقیقی“ کو Quotesلگاکر متنازعہ میں نے اس لئے بنایا کیونکہ 1980کے بعد ”حریت پسندوں“ کا رہ نما رابرٹ موگابے ایک مطلق العنان حکمران بن گیا۔ اس کے گرد جمع ہوئے ”حریت پسند“ رہ نماﺅں نے بھی اقتدار کے حصول کے بعد اپوزیشن کو اس ملک میںپنپنے نہیں دیا۔ کثیر الجماعتی نظام کی بجائے یک جماعتی آمریت مسلط کردی گئی۔ قدرتی وسائل اور زرخیز زمین سے مالا مال زمبابوے آمریت کے طویل برسوں کی وجہ سے اب تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔ وہ زمینیں جو کبھی سفید فام لوگوں کی ملکیت ہوا کرتی تھیں، ”حریت پسند“ رہ نماﺅں نے آپس میں بانٹ لیں۔ کسانوں کی بے پناہ اکثریت زمین کا مالک ہونے کی لذت سے محروم رہی۔ قدرتی وسائل اور خاص کر ہیروں کی پیداوار سے کمایا خطیر زرمبادلہ ماضی کے ”حریت پسندوں“ نے اپنی عیاشیوں کے لئے ہتھیانا اور صرف کرنا شروع کردیا۔
”آزادی“ کے باوجود مسلط ہوئی بھوک،بدحالی ا ور اشرافیہ کی کامل آمریت نے زمبابوے کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ صرف جنوبی افریقہ میں اس وقت 30لاکھ سے زائد افراد اس ملک سے نکل کر دن رات کی مشقت سے اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ظلم کی مگر انتہا بھی ہوتی ہے۔ بتدریج یہ حقیقت عیاں ہورہی تھی کہ زمبابوے میں ”عرب بہار“ جیسا کوئی واقعہ ہونے والا ہے۔ اس کی پیش بندی کے لئے زمبابوے کی حکمران اشرافیہ نے بڑی مکاری سے رابرٹ موگابے کو اس ملک کی تمام مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس سے ”نجات“ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
زمبابوے کی تمام تر اشرافیہ اجتماعی طورپر ظالم اور بدعنوان ہے۔ یہ بنیادی طورپر آزادی کی جنگ لڑنے والوں پر مشتمل ہے جو خود کو Veteransکہتے ہیں۔ انہیں موگابے کو نفرت کا نشانہ بنانااس لئے بھی آسان ہوگیا کہ 39برسوں سے اس ملک پر قابض 93سالہ آمر نے 51برس کی ایک خاتون سے شادی کررکھی ہے۔ Graceاس کی بیوی کا نام ہے۔ اسے دولت جمع کرنے اور اس کی نمائش کی ہوس اور لت ہے۔ جدید ترین فیشن کے قیمتی لباس اور زیورات خریدنے کی وجہ سے اسے Gucci Graceکہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ Gucciایک بہت بڑا فیشن برانڈ ہے۔
Gucci Graceکی ہوس زر کی کہانیوں کو پھیلا کر زمبابوے کی اشرافیہ نے بہت مکاری سے تاثر یہ پھیلانا شروع کردیا کہ موگابے اپنی موت کے بعد اسے زمبابوے کی ”ملکہ“ بنانا چاہ رہا ہے۔ Graceبھی سیاسی محاذ پر ضرورت سے زیادہ نمایاں ہونا شروع ہوگئی اور بالآخر چند دن قبل ماضی کے ”حریت پسندوں“ میں سے ایک اہم ترین رہ نما Emmerson Mnangagwaکو نائب صدر کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔
ایمرسن کئی برسوں تک زمبابوے کے جاسوسی ادارے کا سربراہ رہا ہے۔ اس حیثیت میں اس نے اپوزیشن کو کچلنے کا ہر وحشیانہ قدم اٹھایا۔ شمالی کوریا کی مدد سے اس نے ایک 5thبریگیڈ بنائی۔اس بریگیڈ نے ہزار ہا افراد کو قتل کیا ہے۔ اس کی بدولت زمبابوے میں آزادانہ انتخابات کبھی ہو نہیں پائے ہیں۔
ایمرسن کی برطرفی نے مگر زمبابوے کی فوج کو بہانہ فراہم کردیا کہ وہ آگے بڑھے۔ موگابے کواس کے گھر میں نظر بند کردے۔ اس کے ساتھ ہی مگر یہ دعویٰ بھی کرے کہ اس نے فوجی بغاوت نہیں کی ہے۔”موگابے کے گرد جمع ہوئے“ بدعنوان لوگوں سے نجات پانے کے لئے محض ”مداخلت“ کی ہے۔ بظاہر نیک نیتی اور معصومیت سے ہوئی اس ”مداخلت“ کے بعد موگابے کو قائل کرنے کی کوشش ہوئی کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ایمرسن کو عبوری حکومت کا صدر نامزد کردے جو نئے ا نتخابات کروائے اور گلشن کا کاروبار چلے۔
موگابے مگر اپنی اشرافیہ کا باپ ثابت ہوا ہے۔ اتوارکے روز ٹیلی وژن پر ”استعفیٰ“ دینے والی تقریر کرنے نمودار ہوا تو بہت منافقت سے معاملات کی خرابی کا اعتراف کرتے ہوئے دسمبر کے آغاز میں حکمران جماعت کا کنونشن طلب کرنے کا اعلان کیا تاکہ ”ایمان دارانہ بحث“ کے بعد حالات کو سنوارا جاسکے ۔”میرے عزیز ہم وطنو“ کہے بغیر ”قصہ مختصر“زمبابوے میں ”انقلابی تبدیلی“ لانے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ ”ٹیکنوکریٹس“ کی عبوری حکومت نہیں بن پائی ہے۔
٭٭٭٭٭