’’بچے سارے اچھے‘‘ پھر محمود و ایاز کا فرق کیوں؟

قارئین جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر20نومبر کو یوم اطفال منایا جاتا ہے دنیا بھر کی طرح بچوں کا محض ایک عدد عالمی دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے یوں سمجھئے ان معصوموں کی بات ابھی شروع ہی بمشکل ہو پائی ہے کہ سلسلہ چند زبانی کلامی وعدوں پر ختم ہو جاتا ہے لیکن پچھلے سال صد شکر کہ وطن عزیز میں ایک دن کو ایک ہفتے تک پھیلا دیا گیا چلئے کچھ نہ ہونے کی نسبت کچھ نہ کچھ ہونا ہی بہتر ہے اب بھی ہر طرف بچوں کے حقوق و فرائض کی بات ہو رہی ہے ان کے مشاغل کو ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے، تقاریب منعقد ہو رہی ہیں، چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ امید بندھ چلی ہے کہ جہاں لوگوں کو بچوں کے حقوق سے آگاہ کیا جا رہا ہے وہاں ان کے مسائل کو حل کرنے کا ڈول بھی ڈالا جائے گا۔ یوں تو یہ سارا عمل بہت مبارک اور امید افزاء ہے لیکن بچوں کی فلاح کیلئے خاص کمشن قائم کرنے کی خبر بھی بہت خوش کن ہے سنا ہے کمیشن بچوں کے حقوق کی مانیٹرنگ کا نظام فی الحال ضلعی سطح پر شروع کرے گا جو وقت کے ساتھ ساتھ ملک گیر ہوتا جائے گا یہ ایک انتہائی اہم، بنیادی اور ٹھوس نوعیت کا اقدام ہے جس کے انشاء اللہ مفید اور مثبت نتائج نکلیں گے بلکہ نکلنے چاہئیں۔ 

پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے اس میں بچوں کے حقوق کی بطور خاص دیکھ بھال حد درجہ ضروری امر ہے یہی بچے جو کل کے باپ ہیں اگر خود جہالت اور محرومیوں یں پلتے بڑھتے رہے تو وہ اپنی آئندہ نسلوں کو وراثت میں کیا دیں گے؟ دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ لمحہ موجود میں غربت اور مہنگائی نے عوام کو پیس کر رکھ دیا ہے بے بس و مجبور والدین اپنے بچوں کے حقوق کا ادراک کرنے کے باوجود جتنا بھی زور لگا لیں ان کو بیک وقت متوازن خوراک، اچھی تعلیم اور مناسب رہائش مہیا نہیں کر سکتے ایسے حالات میں اگر حکومت ان کا ہاتھ بٹانے کیلئے ان کے بچوں کو بنیادی مفت تعلیم اور صحت و رہائش کی سہولتیں فراہم کرے تو مجموعی طور پر مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یونیسف کے ایک نمائندے سٹیفن پومی موٹو کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ ہزار بچے یومیہ مر جاتے ہیں، ظاہر ہے اس المیے کی وجوہات بھی ہوں گی جن سے جنگی بنیادوں پر نپٹنا ضروری ہے حق تو یہ ہے کہ اس دنیا میں وارد ہونے والے ہر بچے کیلئے تعلیم و صحت کی سہولتیں اس کا بنیادی حق ہے جو اسے بہر طور ملنا چاہئے… جہاں تک چائلڈ لیبرکا سوال ہے تو قانونی طور پر جیسا کہ چودہ سال سے کم عمر بچے کیلئے مزدوری پر بظاہر پائندی بھی ہے اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے یہ عمر بچوں کی نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی نشوونما کی ہوتی ہے اس حقیقت کو نظرانداز کرنا باقاعدہ جرم کے زمرے میں شامل ہے کوئی بھی ماں اپنے بچے کو علی الصبح نیلی سردی اور گرمیوں کی سرخ تپتی دھوپ میں گھر سے مزدوری کی خاطر نکالنا نہیں چاہتی مگر غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور مامتائیں یہ سب کچھ کرنے اور سہنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کی تعلیم سے محرومی ان کا مستزاد صدمہ ہوتی ہے بلکہ ایسے دکھوں اور پریشانیوں کی وجہ سے کئی نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں بچے کم عمری میں کمانے کے بوجھ کی وجہ سے جرائم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جس سے مجموعی طور پر معاشرہ اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو رہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کو صرف بچہ ہی سمجھا جاتا ہے جسے چارہ ڈال دیا جاتا ہے یا چارہ کمانے پر مجبور کیا جاتا ہے اسے انسانی گوشت پوست کا محسوسات رکھنے والا فرد نہیں سمجھا جاتا اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو انتہائی ابتدائی عمر میں معاشرے کا مفید شہری بنانے کی باقاعدہ تربیت شروع کردی جاتی ہے ستم پرستم یہ کہ ہمارے ہاں سہولتوں اور آسائشیوں سے محروم بچوں کیساتھ معاشرہ بھی امتیازی سلوک کرتا ہے ان کیلئے تربیت گاہیں، سکولز اور تفریح گاہیں بنانے کے بجائے جیلیں بنائی جاتی ہیں جہاں انہیں جہالت اور کچی عمر کے جرائم کی پاداش میں بند کر دیا جاتا ہے ظاہر ہے وہ پیدائشی مجرم نہیں ہوتے زبردستی انہیں اس راہ پر لگا دیا جاتا ہے۔ پولیس کے عقوبت خانوں میں اکثر بچے سسک سسک کر مر جاتے ہیں کچھ معصوم پھولوں کو خرکار اپنے کیمپوں میں لے جا کر ان کے ہاتھ پائوں توڑ کر یا ان کی آنکھیں نکال کر پایہ زنجیر کر دیتے ہیں حکومت ان تمام مظالم و مصائب کا جائزہ لے کر جرائم پیشہ لوگوں کو عبرتناک سزائیں دے۔
ہم سمجھتے ہیں امیر والدین لمحہ بھر کیلئے اگر آنکھیں بند کرکے یہ تمام مناظر خیال میں لے آئیں یا پھر اپنے معصوم بچوں کے ہاتھوں میں کاریں صاف کرنے کیلئے جھاڑن لے کر بھاگنے، گندگی سے گندم کا دانہ ڈھونڈنے اور آتے جاتے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے بچوں کو محض تصور میں ہی لے آئیں تو شاید اہل بلکہ دہل جائیں جبکہ قدرت کی جانب سے کوئی بچہ کسی دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتا سب کا ذہن و محسوسات یکساں ہوتے ہیں۔
ابھی کچھ سال پہلے ہمیں ہفتہ اطفال کے سلسلے میں کئی سکولز اور دوسرے تعلیمی اداروں کی تقریبات میں صدارت کرنے کا موقعہ ملا اعلیٰ درجہ سکولز اور اندرون شہر سکولز میں جتنے بھی بچے تھے ان میں کوئی واضح فرق نہ تھا بلکہ اندرون شہر سکولز کے بچوں میں زیادہ خود اعتمادی اور ذہانت دیکھی فرق صرف لباس میں تھا ہم سمجھتے ہیں یہ فرق بھی ختم ہو سکتا ہے اگر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں مالی درجہ بندی ختم کرکے یکساں نصاب اور یکساں یونیفارم کر دیئے جائیں تاکہ کسی بھی سطح پر محمود و ایاز کا فرق باقی نہ رہے… ہم کار میں آکر بیٹھے تو ایک ننھا سا پھول جس کے ہاتھوں پر خشکی کے کانٹے ابھرے ہوئے تھے ہماری گاڑی صاف کرنے لگا ہم نے پیار سے قریب بلا کر کہا کہ پڑھتے کیوں نہیں ہو؟ انتہائی خود اعتمادی سے بولا پڑھ کر کیا کرنا ہے پڑھنے سے پیٹ تو نہیں بھرتا میرے چار اور بھی بہن بھائی ہیں۔یہ الفاظ میری مامتا کے اندر تک اتر گئے کچھ نہ کر سکنے کی بے بسی مٹانے کیلئے ہم نے از راہ شفقت کہا دیکھو بیٹے جب بھی وقت ملا کرے پڑھ ضرور لیا کرو۔ برے بچے نہ بننا اچھے بچے بننا، اس پر وہ اپنے سرخ آنسو کالی میلی آستین سے پونچھتے ہوئے بولا بیگم صاحبہ بچے تو سارے ہی اچھے ہوتے ہیں صرف ہم ہی برے ہیں کیونکہ ہم غریب ہیں مگر آپ بتائیں ہم غریب کیوں ہیں؟میں اسے کیا جواب دیتی؟ کہ یہ اس کی جانب سے سوال بھی تھا اور جواب بھی تھا اس دوہری پھانسی سے ہمارا گلہ بند ہو گیا۔ الفاظ مر گئے، مامتا جھک گئی، ڈکشنری مٹ گئی، زبان و بیان نے دغا دے کر نہتا کر دیا بہرحال اس وقت حکومت کی یادداشت کیلئے چند گونگے لفظ لکھنے بیٹھ گئی خدا کرے سننے والے گونگے بہرے نہ ہوں۔-1بچوں کیلئے ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی قرار دی جائے۔-2ملک بھر کے بچوں کو بلا تخیصیص صحت اور خوراک کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔-3بچوں کے جیل بھیجنے پر پابندی لگائی جائے۔ -4خرکاروں اور اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو چوراہوں پر سنگسار کیا جائے۔
قارئین ایک سوچ یہ بھی آئی کہ آخر سال بھر میں صرف ایک دن یا ہفتہ ان پھولوں کیلئے کیوں منایا جائے؟ ایک قسم کے گوشت پوست سے ڈھلے ہووئوں میں محمود و ایاز کا فرق کیوں؟ ایئر کنڈیشنڈ اور ٹاٹ سکولوں میں ایسی تفریق کی وجہ سے نتیجتاً محمود ایاز ہی پیدا ہو رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمود و ایاز اور شاہ و گدا سب نے جس مٹی میں جانا ہے اس کا رنگ پورے کرہ ارض پر یکساں ہے لٹھے کا رنگ بھی ایک سا ہے پھر فرق کا تفرقہ کیوں؟ بچے تو سارے اچھے ہوتے ہیں محمود و ایاز نہیں ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن