اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی حکومت اور علماءکرام اور مشائخ عظام کے درمےان مشاورتی اجلاس مےں پیر حسین الدین شاہ کی سربراہی میں مختلف مسالک کے علما کی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کےا گےا جو تحرےک لبےک ےارسول اللہ کے دھرنا سے پےدا ہونے والی صورت حال کا حل تلاش کرے گی۔ اس بات کا اعلان وفاقی حکومت اور علماءکرام اور مشائخ عظام کے درمیان مشاورتی اجلاس کے اختتام کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب وفاقی وزراءاحسن اقبال اور سردار محمد یوسف نے علماءو مشائخ سے ملاقات کی جس کے بعد اعلامیہ میں کہا گیا کہ ختم نبوت قانون میں آئینی و قانونی سقم کو دور کر دیا گیا‘ عقیدہ ختم نبوت میں کسی لغزش یا کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ عقیدہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے‘ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت حتی الامکان آپریشن سے گریز کرے۔ کمیٹی فوری طور پر مسئلے کا جامع اور اطمینان بخش حل تجویز کرے‘ جشن عید میلاد النبی کیلئے پرامن سازگار ماحول پیدا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ عقیدہ ختم نبوت میں کسی لغزش یا کوتاہی کی گنجائش نہیں‘ عقیدہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ راولپنڈی اسلام آباد کے 8 لاکھ عوام کی مشکلات کا فوری ازالہ ہونا چاہئے‘ حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں۔ ختم نبوت پر قانون میں آئینی و قانونی سقم کو دور کر دیا گیا۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ذمے دار کے خلاف کارروائی کی جائے‘ حالیہ واقعات تشویش کا سبب ہیں۔ اجلاس میں حکومت نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے گا اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ قبل ازیں اجلاس میں حکومت نے راجہ ظفر الحق کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ذمہ دار کے خلاف کارروائی پر بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ بعد ازاں وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے علماءکے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ احسن اقبال نے کہا کہ اجلاس میں موجود صورتحال کا جائزہ لیا گیا، ہم سب کا اتفاق ہے کہ دھرنے کا معاملہ پرامن طور پر حل ہو، پاکستان کسی بے امنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سب کا ایمان ہے کہ ختم نبوت سے متعلق بال برابر شک بھی نہیں ہو سکتا۔ ختم نبوت کا معاملہ آئین میں قیامت تک کیلئے حل ہو چکا ہے، وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا کہ اتفاق ہوا ہے کہ ظفر الحق کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر لائی جائیں گی۔ سردار یوسف نے کہا کہ اجلاس نے حکومت پر زور دیا کہ طاقت کے استعمال سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ چاہتے ہیں دنوں کی بجائے گھنٹوں میں اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ سعد رفیق نے کہا کہ گفتگو ہوئی جو وضاحت ممکن تھی وہ کی گئی، حکومت کی کوشش ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکلے، جہاں تک استعفے کی بات ہے یہ ایک فرد کے استعفے کی بات نہیں، ایک آدمی جس کا کوئی قصور نہیں اسے کیوں نکال دیا جائے، اس معاملے کی 2 فورمز پر تحقیقات ہو رہی ہیں، ایک راجہ ظفر الحق کمیٹی کام کر رہی رہے دوسرے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ دھرنے والوں سے اپیل ہے کہ وہ عام شہریوں کا خیال کریں۔
وزیرداخلہ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا ختم نہ کرائے جانے پر اسلام آباد انتظامیہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے ۔ دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ لاکھوں افراد کے حقوق سلب ہونے نہیں دیں گے، بطور جج شہریوں کے انسانی حقوق کا محافظ ہوں ، حکومت کی جانب سے قوم کو اعتماد میں لیکر اور قوم سے خطاب کرکے بتائیں کہ دھرنا ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اس موقع پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے دھرنا ختم نہ کرانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سیاسی قیادت مظاہرین سے خود مذاکرات کر رہی ہے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 4 سے 5 ہزار افراد تمام شہریوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں اور وہ کیا مطالبہ لے کر بیٹھے ہیں اس سے متعلق سوچنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں، اصل مسئلہ صرف امن و امان کا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ کچھ باتیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کی جا سکتیں۔ جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جو بات کرنی ہے اوپن کورٹ میں کریں، جو بات ہے اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 8 لاکھ شہریوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ انہوں نے حکومت سے استفسار کیا کہ تاجروں، مریضوں، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جائے ابھی تک عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ علیحدگی میں کیا بات کریں گے یہی کہِیں گے کہ دھرنے والوں کے پاس اسلحہ ہے۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ساڑھے 11 بجے تک طلب کیا۔ عدالت کی جانب سے طلبی پر وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت پیش ہوئے تو فاضل جج نے سوال کیا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوسکا؟ اس موقع پر احسن اقبال نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے تاہم طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کے لئے 48 گھنٹے کی مہلت کی استدعا کی اور کہا کہ خدشہ ہے کہ تمام معاملات آئندہ انتخابات کے لئے ہو رہے ہیں، ہمیں 2 روز کی مہلت دی جائے۔ جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کے بعد مزید وقت نہیں مانگا جاسکتا، آپ اس معاملے میں بے بس ہیں۔اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ میرے زیرنگرانی ہے اور میں نے ہی انتظامیہ سے کہا کہ پُرامن طریقے سے حل نکالنا ہے جس کی ذمے داری قبول کرتا ہوں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ بطور جج لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہوں، دھرنے والے اتنی اہم جگہ تک کیسے پہنچے ¾یہ سمجھ سے بالاتر ہے، غرض نہیں دھرنے والے سیاسی، سیکولر یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ¾عدالت کو صرف غرض ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دئیے کہ ناموس رسالتپوری ا±مت کا مسئلہ ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا لیکن یہ کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں ¾ یہ محض مذہبی جماعت نہیں سیاسی پارٹی بھی ہے جو الیکشن میں حصہ لے چکی ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ اسلام آباد لاک ڈاو¿ن کرنے کی دھمکی پر عدالت نے بہت محنت سے چند حدود متعین کیں تھیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، عدالت جو حدود متعین کرچکی ہے اس پر عمل کیا جائے۔فاضل جج نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سے کسی کو نہیں روکیں گے، یہ ان کا آئینی حق ہے تاہم دھرنا دینے والوں کو احتجاج کے لیے مختص جگہ پر بھیجا جائے۔عدالت نے حکومت کو دھرنا ختم کرانے کیلئے کل تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت جمعرات 23 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دئیے۔ پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدالت سے وقت مانگا ہے ¾ آئندہ 24سے 48گھنٹے میں دھرنے کا حل تلاش کر لینگے ¾ کچھ سازشی چاہتے ہیں لال مسجد اور ماڈل ٹاﺅن جیسا سانحہ ہو ¾ اس وقت ہمارے خلاف بہت زیادہ بیرونی سازشیں ہیں جن کا مقصد ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے ¾ ہم سب مسلمان ہیں ¾ختم نبوت پر سب کا اتنا ہی عقیدہ ہے جتنا دھرنے والوں کا ہے ¾ختم نبوت قانون کی محافظ پارلیمنٹ اور عوام ہیں ¾ مستقبل میں کسی کو دھرنا دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ احسن اقبال نے کہا کہ دھرنے والوں پر طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے ¾ سازشی چاہتے ہیں ملک میں لال مسجد اور ماڈل ٹاو¿ن جیسا سانحہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کوئی کشیدگی پیدا ہو، اس حکومت کا کارنامہ ہے جو قانون 2002ءمیں مشرف نے 10 دنوں کےلئے بنایا ¾اس کی سیون بی اور سی کی شقیں مفقود ہوچکی تھیں لیکن ہم نے اسے مستقل قانون کا حصہ بنادیا جوختم نبوت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ ‘دھرنے والوں کا ہے، دھرنے کے معاملے پر عدالت کے حکم پر عملدرآمد کریں گے‘ یہ کسی کے شایان شان نہیں کہ ہم شہریوں کے راستوں میں کانٹے بکھیریں، مریض دم توڑ رہے ہیں بچے سکول نہیں جارہے ¾دھرنے والوں سے اپیل کرتے ہیں، اس وقت ملک کے حالات کسی تصادم کی اجازت نہیں دیتے، ہمیں خون خرابہ نہیں کرنا چاہئے لہٰذا ربیع الاول کے تقدس کے لئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں۔انہوںنے کہاکہ دھرنے والوں نے یقینی دہانی کرائی تھی کہ وہ دھرنا نہیں دیں گے لیکن یہاں پہنچ کر انہوں نے دھرنا دے دیا، اس میں ہماری غفلت سے زیادہ خوش فہمی کا دخل تھا، اس وقت پاکستان کی ساکھ کا سوال ہے ¾یہاں سفارتخانے ہیں، دھرنے والوں کی تصاویر پاکستان کی دشمن لابیاں ملک کا تماشہ بنانے کےلئے استعمال کررہی ہیںِ، یہ ختم نبو ت کی نہیں ملک کے دشمنوں کے ہاتھ میں اشتہاری مہم دے رہے ہیں ¾ اس معاملے کو جتنا طول دے رہے ہیں اتنا ملک کے دشمن ان کے دھرنے کو ملک کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد+ راولپنڈی (محمد نواز رضا+ سلطان سکندر) وفاقی حکومت اور تحرےک لبےک ےارسول اللہ کے درمےان فیض آباد انٹرچینچ پر گزشتہ15 روز سے جاری دھرنا ختم کرانے کے لئے مذاکرات مےں ڈےڈلاک برقرار رہا‘ اڑھائی گھنٹے تک پنجاب ہاﺅس میں جاری رہنے والے مذاکرات مےں کوئی مثبت پےش رفت نہےں ہوئی۔ تحرےک لبےک ےارسول اور وفاقی وزراءمیں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا اور دھرنا ختم کرنے کے معاملے پر تاحال برےک تھرو نہےں ہوا حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے تاہم دونوں اطراف نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کےا۔ تحرےک لبےک ےارسول اللہ کی مذاکراتی ٹےم وفاقی وزےر قانون و انصاف زاہد حامد کو ہٹانے کے بارے مےں مطالبے سے دستبردار نہےں ہوئی جبکہ وفاقی وزےر قانون و انصاف شاہد حامد نے تحرےک لبےک ےا رسول کی مذاکراتی ٹےم کے سامنے اپنی پوزےشن کی وضاحت کی اور کہا کہ وہ راسخ العقےدہ مسلمان اور ختم نبوت پر پختہ ےقےن رکھتے ہےں وہ کس طرح اےسی بات کے مرتکب ہو سکتے ہےں جو ان کے عقےدہ کے خلاف ہو۔ پنجاب ہاﺅس میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مذاکرات میں راجہ محمد ظفرالحق، خواجہ سعد رفیق، زاہد حامد، کیپٹن صفدر، رانا ثناءاللہ، انوشہ رحمان، چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب اور کمشنر نے شرکت کی جبکہ تحریک لبےک ےا رسول اللہ کے وفد میں ڈاکٹر شفیق امینی، پیر اعجاز اشرفی، عنایت الحق شاہ اور مولانا ظہیر نور شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق راجہ محمد ظفر الحق نے بتاےا کہ مسلم لےگ (ن) کے صدر مےاں نواز شرےف کی ختم نبوت کے اےشو کے بارے مےں قائم کردہ تحقےقاتی کمےٹی پارلےمانی کمےٹی برائے انتخابی اصلاحات کے اےک سو سے زائد اجلاس منعقد ہوئے ہےں پورے رےکارڈ کی جان پڑتال کی جا رہی ہے۔کمےٹی کسی نتےجہ پر نہےں پہنچی۔ قبل ازےں کمےٹی نے مےاں نواز شرےف کو ابتدائی رپورٹ پےش کی تھی حتمی رپورٹ جلد تےار کر لی جائے گی۔ مذاکرات کے دوران حکومت نے تحرےک لبےک ےارسول اللہ کا زاہد حامد کو ہٹانے کا مطالبہ تسلےم کرنے سے انکار کر دےا اور تحرےک لبےک ےارسول اللہ پر اپنے مطالبات مےں لچک پےدا کرنے پر زور دیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت راجہ ظفر الحق رپورٹ شائع کرنے پر تےار ہو جائے گی لےکن زاہد حامد کو نہےں نکالے گی۔ حکومت اور علماءکرام کے درمےان مذاکرات مےں مولانا حسےن الدےن شاہ کی سربراہی مےں قائم کےا جرگہ تحرےک لبےک ےا رسول اللہ کی قےادت سے مذاکرات کرے گا اور اسے دھرنا ختم کرنے کا مشورہ دے گا جبکہ حکومت اور علما کرام کے درمےان مشاورتی اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامےہ مےں راجہ ظفر الحق رپورٹ شائع شائع کرنے کا مطالبہ کےا گےا، حکومت اور تحرےک لبےک ےا رسول اللہ کی قیادت کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور ناکام ہونے کے باوجود بات چیت جاری رکھنے کا فےصلہ کےا گےا تاہم تحرےک لبےک ےا رسول اللہ پر واضح کر دےا گےا ہے ختم نبوت کے بارے مےں قانون مےں اجتماعی غلطی ہوئی ہے جس کا بہتر انداز مےں ازالہ کر دےا گےا۔ دھرنے کی قیادت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد ہے جبکہ حکومت کا مﺅقف ہے کہ ختم نبوت کا قانون بحال کیا جا چکا ہے جس کے بعد دھرنا بلاجواز ہے۔ پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں مذاکرات کا چھٹا دور تین گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ وفاقی اور صوبائی وزراءقانون زاہد حامد اور رانا ثناءاللہ پہلی بار ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔ باخبر ذرائع کے مطابق حکومتی ٹیم کی طرف سے متنازعہ ترمیم کی منظوری پر وفاقی وزیر قانون کی طرف سے معافی مانگنے کی پیشکش کی گئی جسے تحریک لبیک کی ٹیم نے قبول کرنے سے انکار کردیا جبکہ اس موقع پر زاہد حامد نے واضح کیا کہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق اہل سنت مکتبہ فکر سے ہے۔ اس پر تحریک لبیک کی ٹیم کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نے انہیں غیر مسلم نہیں کہا بلکہ بغیر پڑھے متنازعہ بل کی منظوری وزیر قانون کی نااہلی ہے۔ اس لئے ہم استعفیٰ کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس لئے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکے تاہم مذاکرات کے دوران رانا ثناءاللہ خاموش رہے اور ان کے حوالے سے کوئی بات نہ ہوئی۔ تحریک لبیک کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سید عنایت الحق شاہ نے نوائے وقت کے استفسار پر کہا کہ ابھی وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر قانون کے حوالے سے بات ہورہی ہے، یہ معاملہ حل ہونے کے بعد صوبائی وزیر قانون کی بھی بات ہوگی۔ تحریک لبیک اپنے مو¿قف پر قائم ہے، گیند حکومت کی کورٹ میں ہے جو وزیر قانون سے استعفیٰ دلوا کر ہمارا بنیادی مطالبہ پورا کرسکتی ہے۔
ڈیڈلاک برقرار