چھٹی صدی عیسوی کا وہ جاں بہ لب ماحول، جاہلیت کا وہ وحشت ناک زمانہ، علم و معرفت سے عاری اور تہذیب وثقافت سے خالی وہ تاریک ترین دور ،جہنم کے دہانے پر کھڑی، اپنی بربادیوں کا نظارہ کرتی اور اپنی درندگی پر ناز کرتی انسان نما حیوانیت۔ ایک ایسا سنسان عالم جہاں نہ صنفِ نازک کے حقوق کا پاس نہ خونی اور نسبی رشتوں کا لحاظ، نہ بچوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات، نہ بوڑھوں کی ضعیف العمری کا احساس۔ خدا فراموشی اور خود فراموشی کی ایک ا یسی صدی جس کی جہالت و ناخواندگی میں کوئی نظیر نہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ رحمتِ خداوندی کو اس سسکتی، بلکتی اور تڑپتی انسانیت پر رحم آتا ہے۔ خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کو راہِ راست پر لانے کیلئے سلسلہ نبوت ختم کرتے ہوئے سرورِ کائنات محمدﷺ کو اپنا آخری رسولﷺ بنا کر بھجوایا اور الہامی کتابوں کے نزول کا سلسلہ موقوف کرتے ہوئے قرآن مجید نازل فرمایا۔ گھٹا ٹوپ تاریکی میں ضلالت کے دبیز پردوں کو چاک کرتا ہوا ایک نورِ کامل نمودار ہوتا ہے اور آن کی آن میں سارا عالم مطلع انوار ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ رسول کریمﷺ کی دنیا میں آمد کے ساتھ جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ نبی کریمﷺ کی شان بارے قرآن مجید میں خالقِ کائنات خود ارشاد فرما ہے کہ " یقیناً تمہارے لئے رسول اللہﷺ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے " ۔
انبیاء کو قوموں کی طرف روانہ کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہِ راست پر آ جائے اور ہر طرح افراط و تفریط سے ان کی زندگیاں پاک ہو جائیں۔ اس سلسلے میں ارشادِ ربانی یوں ہوا " ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو"۔ گزشتہ امتوں میں جو انبیاء تشریف لائے وہ ایک خاص خطہ اور علاقہ کی حد تک ہی تھے لیکن حضرت محمدﷺ کا معاملہ ایک عالمگیر حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اب آپﷺ کے بعد کوئی نبی و رسول آنے والے نہیں ہیس۔ اگر کوئی شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھتا ہے تو وہ قطعی طور پر جھوٹا ہے او اس کے کافر ہو جانے میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا محمدﷺ آخری نبی و رسول کے ساتھ ساتھ سارے جہاں والوں کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ اب رہنمائی و رہبری کیلئے قیامت تک کیلئے آپﷺ کی تعلیمات سارے انسانوں کی دنیا و آخرت کی کامیابی اور انکی سرفرازی کیلئے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی آدمی آپﷺ کی تعلیمات سے کو چھوڑ کر اپنے طبع ذات دین کو اختیار کریگا وہ یقیناً ناکام و نامراد ہو گا اور اس کا یہ عمل عند اللہ نا مقبول ہو گا اور وہ اپنے آپ کو عذابِ جہنم کا مستحق بنا لے گا۔ نبیﷺ نے جو دین پیش فرمایا ہے یہ شروع دن سے ہی چلا آ رہا تھا یعنی بنیادی طور پر تھوڑا بھی فرق نہیں ہے اور محمدﷺ نے جو دعوت دی اس میں کوئی نئی بات نہ تھی اس سلسلہ میں قرآن اپنی گواہی یوں پیش کرتا ہے۔ اس نے تم پر کتاب نازل کی جو حق لیکر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے آئی ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کیلئے تورات و انجیل نازک کر چکا۔ غرض کہ نمونہ بندگی کیلئے یہ آخری کڑی رکھ دی گئی۔ گزشتہ انبیاء کو جو دین دے کر بھیجا گیاتھا ان انبیاء کی متعلقہ امتوں نے اپنے انبیاء کے وصال کر جانے کے بعد دین میں بگاڑ پیدا کر لیا اور یہاں تک کہ اپنے انبیاء پر اتاری گئی مقدس کتابوں کی تعلیمات میں الٹ پھیر کرتے ہوئے کمی و زیادتی کر بیٹھے یعنی دنیاوی مفاد کی خاطر اس میں تحریف کر چکے۔ ان لوگوں کو پھر وہی اصلی تعلیمات کی طرف دعوت دینا نبیﷺ کی بعثت کا عظیم مقصد ہے اور نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت پھر اس کے بعد نبوت کا تاج آپﷺ کے سر مبارک پر رکھنے کا دوسرا منشا یہ ہے کہ عرب کی اس سرکش قوم کو جو بت پرستی میں مبتلا ہو چکی تھی اور اللہ کی ذات، صفات، اختیارات اور اس کے حقوق میں اپنے ہی ہاتھوں بنائے گئے بتوں کو دخیل و شریک سمجھ بیٹھی تھی، ان کو وحدہ لاشریک کی طرف بلانا تا کہ دنیا میں اللہ کی مرضی کے مطابق عمل ہونے لگے اور زمین پر معبودانِ باطل کی جھوٹی بندگی ختم ہو۔ خدا کی زمین پر خدا کے احکام نافظ ہو جائیں اور سارے کے سارے ا نسان ایک خدا کی بندگی اختیار کرنے لگیں کیونکہ بندگی کے لائق ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی کی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادیانِ باطل پر دینِ رحمت و دینِ فطرت غالب ہو کر رہے۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ غلبۂ دین کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ مراسمِ عبودیت میں کچھ تبدیلی آ جائے یا بت پرستی چھوڑ کر اسلامی طرز کی عبادات کی جانے لگیں بلکہ دینِ حق کے غالب ہو جانے کا وسیع معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی کے شب و روز اللہ تبارک تعالیٰ اورا س کے حبیبﷺ کے احکامات کے تابع ہو جائیں یعنی ان تمام امور میں اللہ کو مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کیا جائے اورا سکے حکم اور منشا کے عین مطابق دنیا میں فیصلے ہوں۔