حقوق حاصل کرنے کی جنگ:
آج دنیا میں ہر آدمی اپنا حق وصول کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بن گئیں ہیں تو کہیں حقوق نسواں کی بات ہوتی ہے۔ باپ کہتا ہے میرا حق، اولاد کہتی ہے میرا حق، خاوند بیوی، بہن بھائی، ہر کوئی اپنا حق وصول کرنے کیلئے تیار ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ میں اپنا حق وصول کرنے کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دوں گا۔ اگر بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان یہ محسوس کر لیتا ہے کہ میں اپنا حق وصول نہیں کر پاؤں گا تو کہتا ہے کہ اچھا قیامت کے دن میں ضرور وصول کر کے رہوں گا۔ معاف نہیں کروں گا۔ ایک مثال: غور کرنے کی بات ہے کہ جب انسان نکاح کرتا ہے تو یوں کہتا ہے کہ میں نے قبول کیا۔ صرف یہ لفظ کہہ دینے سے بیوی کی ساری زندگی کی ذمہ داری اس پر آجاتی ہے۔ جیسے بیوی کا نان نفقہ وغیرہ اور اگر کبھی یہ مر جائے تو اسکے مال میں سے بھی بیوی کو حصہ ملیگا۔ یہ سب صرف اس بات سے ہوا کہ اس نے کہا میں نے قبول کیا۔ اب اگر کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے لاالہ اللہ محمدالرسول للہ تو اس کلمہ کے پڑھنے اللہ رب العزت اور نبی علیہ السلام کے کتنے حق ہم پر آتے ہیں!!؟؟؟حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ہم کہتے ہیں کہ حقوق العباد کی معافی تو بندے سے ہی لینی پڑتی ہے۔عباد یعنی بندوں کے بھی ہم پر حق ہیں لیکن جو اشرف العباد ہیں، افضل العباد ہیں، انسانوں میں سب سے عظیم ہیں انکے حقوق کے بارے میں تو ہم ناواقف ہی ہیں۔ آج اگر مسلمانوں سے پوچھ کیا جائے کہ نبی علیہ الصلوۃ السلام کے حقوق بتائیے تو بہت سارے لوگ ان سے ناواقف ہوں گے۔
حضور پاک ﷺ سے محبت کرنا:
نبی علیہ السلام کے حقوق میں ایک حق ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا۔ محبت کسے کہتے ہیں؟ محبت کہتے ہیں دل میں کسی چیز کی طلب پیدا ہوجانا۔ اس کا دل میں جگہ بنالینا۔ اس کو حاصل کرنے کا دل کرنا۔ اسکے بغیر چین نہ آنا۔ اس کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔ جب یہ محبت نبی علیہ السلام سے ہوجاتی ہے تو اس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ علماء نے فرمایا کہ محبوب کو بھول نہ سکنے کو محبت کہتے ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ جس کام کو رسول اللہﷺ نے جس طرح فرمایا اس طرح سے کرنا محبت ہے۔ بعض نے فرمایا کہ حضور ﷺ سے ملاقات کا شوق اور اشتیاق پیدا ہوجانا یہ محبت ہے۔ بہرحال حضورﷺ سے محبت کرنا خود اللہ کا بھی حکم ہے اور نبی علیہ السلام کا بھی حکم ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ تم اللہ سے محبت کرو کہ اس نے تمھیں بہت سی نعمتیں دی ہیں اور مجھ سے محبت کرو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ تم اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک کہ میں محمدﷺ تم کو تمھارے والدین،اولاد، تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت کا معیار کیا ہے؟
ایک واقعہ دل کے کانوں سے سنئیے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مجھے آپ سے اتنی زیادہ محبت ہے جو مجھے میرے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں اور تمام مال اسباب سے زیادہ ہے، مگر میری اپنی جان کہ وہ مجھے الگ سے عزیز ہے۔ نبی علیہ الصلوۃ السلام نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ نہیں عمر! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ جب تک کہ میں محمد ﷺ تمھیں اہنی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تمھارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ تب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اب تمھارا ایمان مکمل ہوا ہے۔ غور کیجیے، سیدنا عمر فاروق نے محبت کا جو محبت کا لیول پہلی مرتبہ پیش کیا تھا، جو کہ قبول بھی نہیں ہوا، ہم میں سے تو شاید ہی کوئی ہو جو اتنا معیار بھی پیش کرسکے جو ماں باپ، اولاد دنیا کے ہر انسان، مال ودولت ہر چیز سے ثابت کر سکے کہ میں نے نبی علیہ السلام سے ہر چیز سیزیادہ محبت کی ہے۔
ہمارا دعوی محبت رسولﷺ کا اور اس کی حقیقت
کتنی مرتبہ اولاد کی وجہ سے ہم سنت کو چھوڑ دیتے ہیں، کتنی مرتبہ کسی دوسرے رشتے کی وجہ سے ہم سنت کو ترک کر دیتے ہیں۔ ہم دین کا نقصان برداشت کر لیتے ہیں اور نبی علیہ السلام کی بات کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم تو ابھی تک وہ درجہ بھی پیش نہ کرسکے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش کیا اور وہ قبول بھی نہ ہوا۔ قبولیت ملی تو اس درجہ کو ملی جس میں نبی علیہ السلام کی محبت زیادہ تھی۔ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے اور اللہ سے مانگنا چاہیے کیوں کہ یہ نبیﷺکا ہم پہ حق ہے۔
نبی علیہ الصلوۃ السلام سے محبت کا اجر
جب ہم حضرت محمدﷺ سے محبت کریں گے تو ہمیں کیا ملیگا؟ایک مرتبہ ایک صحابی آئے اور پوچھا کہ قیامت کب آئیگی؟ تو نبی علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ نے کیا تیاری کی ہوئی ہے؟ مطلب یہ تھا کہ کتنے نیک اعمال جمع کر رکھے ہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ زیادہ عبادات تو نہیں ہیں لیکن اللہ اور اسکے رسولﷺ سے سچی محبت ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو انسان جس سے محبت کرے قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔ تو جو اللہ اور اسکے نبی سے محبت کریگا اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اللہ اسے نبی علیہ السلام کا ساتھ عطا فرمائینگے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عطا فرمائیں گے۔اللہ رب العزت ہمیں نبیﷺ کی ناموس کی خاطر تن من دھن قربان کرنے والا بنائے۔ آمین۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق
Nov 21, 2018