دو سال پہلے عید میلاد النبیؐ مدینہ منورہ منانے کی آرزو اس طرح پوری ہوئی کہ ویزے کے حصول سے لیکر سعودی ایئر لائن میں بزنس کلاس میں بکنگ ، دارالتقویٰ میں گنبد خضرا کے ویو والے کمرے اور عید میلاد النبی کی گہری شام میں مدینہ کے ایئرپورٹ پر لینڈنگ اور پھر ہوٹل تک کے راستے غیر معمولی روشنیوں سے منور کرنے کے مناظر سبھی کچھ بہت آسان لگ رہا تھا۔ آج کی رات مسجد نبوی میں ریاض الجنہ والا رش، گنبد خضریٰ پر نور کی بارش، مسجد نبوی کے میناروں سے روشنیاں پھوٹنے کے مناظر غرضیکہ ہر طرف نور کی چادر تنی ہوئی تھی۔ حج کے دنوں والا رش مگر رحمتہ للعالمین ﷺ کے اس شہر میں ہر دل کشادہ، سراپا ایثار، محبت سے لبریز عقیدت سے سرشار خوشی اور تشکر کے ملے جلے جذبات لئے میں اپنے بڑے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد سراج اور اس کے دونوں بیٹوں محمد عمر راشد اور محمد علی راشد کے ساتھ باب ملک فہد سے مسجد نبوی میں داخل ہو کر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور پھر صحن کے اس حصہ میں جہاں سے گنبد خضریٰ صاف دکھائی دیتا تھا جگہ ملنے کا انتظار کرنے کے لئے کھڑے ہی تھے کہ ہم پر اللہ کی مہربانی ہوئی اور ہمیں فوراً جگہ مل گئی۔ نماز، نوافل درود شریف اور باقی عبادات کیلئے جو یکسوئی آج رات میسر آئی اس کیفیت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا ذخیرہ اور انکے استعمال اور اظہار کے ہنر سے واقفیت بھی تہی دامنی کا احساس دلا رہی تھی یا پھر بقول شاعر :؎
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے بغیر ہے فزوں تر وہ نظارہ
ہم جب ہوٹل آئے تو میری اہلیہ اور بہو ابھی واپس نہیں پہنچی تھیں اس خیال سے کہ تھوڑی دیر بعد تہجد کیلئے ہی جانا ہے ان کے آ جانے کی خواہش کرنے پر ان کا ہوٹل پہنچ جانا آج کی متبرک رات خواہشات کے پورے ہونے کا معتبر حوالہ بن گیا اگلے روز جمعتہ المبارک تھا مسجد نبوی کی چھت پر جانے اور وہاں گنبد خضریٰ کے قریب جمعہ کا خطبہ سننے کا اتنا لطف آیا کہ عربی سے نابلد ہونے یا تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو امام صاحب کی گویا ہر بات سمجھ آ رہی تھی اور دل پر اثر کر رہی تھی اس سے پہلے مجھے جمعتہ الوداع اور عیدالفطر مدینہ منورہ میں نصیب ہو چکی تھی مگر آج تو جیسے نصیب بیدار ہو گیا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد وہی سرور اور وہی کیفیت طاری تھی کہ بعض بے عقل حضرات نے وہاں آکر جہاں ہم کھڑے گنبد خضریٰ سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر رہے تھے بہت ہی اونچی آواز میں کچھ پڑھنا شروع کردیا جو سرا سر خلاف ادب ہے، قرآن کی یہ آیت تو سنہری جالی پر لکھی ہوتی ہے’’اے ایمان والوں اپنی آوازیں نبی کریم ﷺ کی آواز سے اونچی نہ کرو‘‘ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں نعت کے نام پر اتنا اونچا پڑھنا کون سی عقیدت ہے، نعت لکھنے والے اقبال عظیم نے تو اس طرح نعت لکھی ہے۔
میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
میں محفل حرم کےآداب جانتا ہوں
میں اپنے بچوں کو بتا رہا تھا کہ یہاں ادب اور سراپا ادب ہی ایمان ہے اور پھر 1968ء میں پہلی بار حاضری کے موقع پر اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کا اس طرح ذکر کیا کہ اگرچہ اب روضہ اقدس کے ساتھ چھوٹی سی دیوار بنانے کے بعد جالی کو ہاتھ لگانا ممکن نہیں رہا پہلے یہ دیوار نہ تھی اور جو کیفیت اس وقت ہوئی اسے میں نے اپنی کتاب ’’عجمی کے حج‘‘ میں چُم لین دے‘‘ کے باب میں اس طرح قلمبند کر دیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے اسے پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں کسی نعت خواں سے جب میں یہ نعت سُنتا ’’ سانوں روک نہ پہرے دارا روضے دی جالی چُم لین دے‘‘ تو میرے ذہن میں پہرے دار کا ایک عجیب سا تصور آتا اور پھر میں اس کے روضے کی جالی چومنے سے منع کرنے کے انداز کا تصور کرتا۔ تو یہ بات دل میں زیادہ سما گئی کہ اس کام کی ’’تیاری‘‘ کرنا ہوگی۔ شاید سبب تھا کہ جب میں پہلی بار1968ء میں آنحضرت ﷺ کے روضہ اقدس پر اضر ہوا تو ریاض الجنتہ میں ایک عمر رسیدہ شخص نے میرے لباس کو دیکھ کر اردو میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ستون توبہ ہے۔ یہاں ایک صحابی ابولبابہؓ کا قصور اس طرح معاف ہوا تھا کہ انہوں نے خود کو اس ستون کے ساتھ باندھ لیا تھا۔ تب سے اسے ستون توبہ کہتے ہیں۔یہاں دو نفل پڑھ لینے کا بڑا اجر ہے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے توبہ قبول ہو جاتی ہے۔میں نے اس بزرگ کو ٹوک کرکچھ کہنا چاہا تو وہ بولے بیٹا پہلے سن لو۔ یہ ستون عائشہؓ ہے، طبرانی میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک بار ارشاد فرمایا، میری مسجد میں ایک جگہ ایسی ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے کی فضلیت کا علم ہو جائے تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں۔ اس جگہ کی نشاندہی حضرت عائشہؓ نے کی تو یہاں ستون عائشہؓ بنا دیا گیا ہے۔یہاں بھی دو نفل ضرور پڑھ لینا اور ہاں ستون سریرپر نفل پڑھنا نہ بھولنا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نبی کریمﷺ اعتکاف فرماتے تھے اور رات کو یہیں آپ کا بستر بچھا دیا جاتا تھا۔ ستون وفود پر تم لازماً نفل پڑھو گے کیونکہ آنحضرت ﷺ باہر سے آنے والے وفود سے اسی جگہ بیٹھ کر ملاقات کرتے۔ میں اب تو ان بزرگ کی بات کاٹنے کی جرأت بھی نہیں کر پا رہا تھا وہ ایک لمحہ کے لئے رکے اور میرے کہنے سے پہلے ہی بولے۔ستون علیؓ کے بارے میں تو تمہیں پتہ ہوگا کہ اس مقام پر حضرت علیؓ نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی جگہ بیٹھ کر حضرت محمدﷺ کی حفاظت کیا کرتے تھے یہاں نفل پڑھ کر ستون حنانہ نفل ادا کر لینا۔یہ نبی کریمﷺ کی محراب کے قریب ہے یہاں کھڑے ہو کر آپ خطبہ ارشاد فرماتے۔ یہیں کھجور کا وہ درخت دفن ہے جو لکڑی کا منبر بن جانے کے بعد آپ کے فراق میں بچوں کی طرح بلبلا کر رویا تھا۔ کہنے لگے میں جانتا ہوں تمہارا کچھ زیادہ وقت لے رہا ہوں۔ لیکن تمہیں ستون تہجد کے بارے میں ضرور بتا دوں کیونکہ یہاں نبی کریمﷺ تہجداد فرماتے تھے۔
میں نے کہا حضور یہ سارے مقدس مقامات ہیں مگر مجھے روضئہ مبارک کی جالی کو بوسہ دینا ہے اس کی کیا ترکیب ہے کہنے لگے پاکستانی ہو چلو دے لو بوسہ ابھی پہرے دار کی آنکھیں بند ہو جائیں گی اورتم بوسہ دے لینا پھر ایسا ہی ہوا۔ ہم عجمی و لائت یا بزرگی کو کرامتوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔اب مجھے بھی احساس ہوا کہ واقعی کوئی بڑے بزرگ ہیں میں نے عرض کیا آپ کب سے یہاں ہیں بولے چالیس سال سے ستون توبہ پر نماز پڑھ رہا ہوں اور پھر زائرین کے ایک دھکے نے مجھے ان سے علیحدہ کر دیا۔
پھر میں جتنے دن وہاںرہایا جب بھی آنحضرت ﷺ کے روضئہ اقدس پر حاضر ہوا وہ بزرگ نظر نہ آئے۔ یا یوں کہے کہ شاید میں ان کو اچھی طرح دیکھ بھی نہیں سکا تھا وہ میری طلب کی بات پوری ہونے کے فوراً بعد ہی تو مجھ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ پہلی ساری باتیں اگرچہ میں نے غور سے سنی تھیں مگر میرے ذہن میں ایک چیز جو اٹک چکی تھی۔ اس کے سبب میں زیادہ توجہ نہ دے سکا اور منتظر تھا کہ وہ بات کہیں ختم کریں میں اپنی بات کہوں۔اب کے بھی میں نے اپنی طرح کئی حجاج کو اسی طرح اشتیاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ روضے کی جالی کو بوسہ دینے کی خواہش رکھنے والے بیشتر افراد کی خواہش پوری ہو جاتی ہے جسے اندر سے اجازت ملتی ہے۔ ہرکس و ناکس یہ کو اجازت نہیں ملتی۔ شاید یہی وہ فقرہ تھا جس کے سبب مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے جو سبز جالی اور سنہری جالی کو ہر طرف سے بوسہ دینے کا شرف حاصل ہوا ہے اس کے سبب حضور ﷺ کی طرف سے ہی گنہگار کو یہ اجازت ملی ہے کہ میں نے فوراً اجازت مانگنے کے انداز میں عرض کیا کہ اب جو سنہری جالی پر بوسہ لیناہے، وہ اس مقام پر لوں گا جہاں سنہری حروف میں اسم مبارک محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا ہے۔ ارادہ کیا بوسہ لے لیا۔ پہرے دار نے میرے سر پر جھپٹا مارا۔ میری کپڑے کی ٹوپی پکڑی اور اوپر اچھال دی۔ زائرین کے ایک دھکے نے مجھے اس مقام پر لاکھڑا کیا۔ جہاں ٹوپی بغیر میری کسی کوشش کے میرے سر پر آگری۔ دوسرے عجمی مبارکباد کہنے لگے بوسہ منظور ہو گیا۔ اور پھر سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سلام پڑھتے ہوئے بھی اور دعا مانگتے ہوئے بھی۔ اور شعر پڑھتے ہوئے بھی …؎
عمل کی میری اساس کیا ہے بجز ندامت پاس کیا ہے
رہے سلامت تمہاری نسبت ، میرا تو بس آسرا یہی ہے
جب میں اور میرے ساتھی بابِ جبریل سے نکل اپنی رہائش گاہ کی طرف جا رہے تھے تو ایک خیال بار بار ذہن میں آرہا تھا کہ واقعی جو اس مقدس جالی کو بوسہ نہیں دیتے، انہیں اندر سے اجازت نہیں ہوتی یا جناب محمد اظہر بھٹہ مرحوم چیف جیالو جسٹ حکومت سعودی عرب والی بات ہے کہ جب میں نے پہلے حج کے موقع پر ان سے پوچھا کہ آپ روضے کی جالی کو بوسہ دینا درست نہیں سمجھتے یا مذ ہباً اس کی کوئی دوسری توجیح کرتے ہیں تو کہنے لگے۔ میں بوسہ نہیں دیتا، سوچتا ہوں یہ جھوٹ بولنے والے لب اس مقدس جالی سے کیونکر چھوئیں۔ ان کو اگر چومنا ہی ہے تو مدینہ کی گلیاں چومیں۔ تم نے سنا نہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے …؎
اس ارض مقدس پر ذرا دیکھ کے چلنا
اے قافلے والو یہ مدینے کی گلی ہے
حق اس کا ادا صرف جبینوں سے نہ ہو گا
اے سجدہ گزارویہ دِرمصطفویؐ ہے
عید میلاد النبیؐ پر مدینہ منورہ کی حاضری
Nov 21, 2018