عید میلادالنبیﷺ کے تقاضے

ضیاء الحق سرحدی
مُحسنِ انسانیت حضوراکرمؐ کے ظہور قدسی کا مبارک دِن آج پورے پاکستان میں منایا جا رہا ہے۔اُمتِ مسلمہ کے ارکان نے عقیدت ومحبت کے ساتھ اپنی مسجدوں ،اپنے گھروں اور اپنی گلیوں بازاروں کو رنگ برنگی روشنیوںاورقمقموںسے سجادیا ہے۔مساجد کے بلند وبالامینار وں سے درودو سلام کی ایمان افروز اور دِل خوش کن صدائیں گونج رہی ہیں اور پیغمبر آخر الزماںؐ کے حضور عقیدت کے نذرانے پیش کئے جارہے ہیں۔ نبیء آخرالزماں محمدؐ سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ کی اتباع میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔اللہ کے محبوب ،رحمت دوعالمؐ کی ولادت با سعادت ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ پیر کے روز ہوئی۔آپ ؐ کی ولادت با سعادت نے اس ماہ کی عزت و عظمت کو مزید بلند کر دیا اور علماء کے نزدیک حضور نبی کریمؐ کی ولادت با سعادت کا وقت شب قدر سے افضل ہے کیونکہ شب قدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اس گھڑی خود نبی کریم ؐ تشریف لائے جو فرشتوں، انسانوں اور تمام انبیاء کرامؑ کے بھی سردار ہیں ۔
اسی ماہ سرکار دوعالم ؐ مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو سرور کونین کا نکاح سیدہ خدیجہؓ سے ہوا تھا اور اب تو عاشقانِ رسول کریم ؐ اس ماہ کو اپنی حقیقی عید کی صورت میں مناتے ہیں جس کے صدقے میں سب عیدیں اللہ نے ہمیں عطا فرمائیں ۔اہلِ اسلام اس ماہ کو بڑی عقیدت ومحبت سے دیکھتے ہیں اور اس ماہ میں خاص طور پر اجتماعات کااہتمام کرتے ہیں۔اس دوران عاشقان ِرسولؐ اپنے نبی کریمؐ کی ولادت با سعادت کی نسبت سے اس ماہ منور میں محافل میلاد، جلسے جلوس میں باکثرت درودوسلام پیش کرناسعادت سمجھتے ہیں۔
حضور اکرمؐ نے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہوئے دین کی دعوت کا آغاز تنِ تنہا کیا جولوگ آپؐ کی زندگی میں ایمان لائے اور آپ کے ساتھی بنے وہ صحابہ کرام ؓ کہلائے یہ وہ سعادت ہے جو ان کے بعد آنے والے کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔جس طرح حضور اکرم ؐ کی ذات کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اسی طرح شرفِ صحابیت سے مشرف ہونے کا سلسلہ بھی اس وقت ختم ہو گیا۔جب آپؐ دین کی دعوت کا مشن مکمل کرکے اپنے خالق حقیقی کی منشا کے مطابق دنیا سے پردہ فرما گئے۔دین اِسلام اِس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور دنیا کے کونے کونے میں توحید کا پرچم سر بلند کرنے والے موجود ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں بھی اگر چہ تھوڑی تعداد میں سہی،مسلمانوں کا وجود ہے۔حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا میں اپنی اُمت کے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کا پیغام قر آنِ حکیم اور دوسری اپنی سنت،جب تک میری اُمت کے لوگ اِن تعلیمات پر عمل کرتے رہیں گے گمراہ نہیں ہوں گے۔لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ حضور اکرمؐ کی چھوڑی ہوئی ابدی ہدایت کی تعلیمات ہر لحاظ سے محفوظ ومامون ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے اور ہماری زندگیوں میں اس طرح رچ بس نہیں سکیں۔
حضوراکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کو ستاروں سے تشبیہ دی تھی جنہوں نے آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں حقِ رفاقت ادا کیا تو آپ کی رحلت کے بعد دینِ محمدیؐ کو دُنیا بھر میں پھیلانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔دنیا بھر میںکلمہ گو مسلمانوں تک اسلام کی تعلیمات انہی ہستیوں کے وسیلے سے پہنچیں جہاں ان کا پیغام نہیں پہنچ سکایا جن سر زمینوں کو اس پیغام کو وصول کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وہ اسلام کے نورِ ہدایت کی روشنی سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے سے محروم رہ گئے،کوئی محرومی سی محرومی ہے! تصور فرمائیں اسلام سے پہلے ایام جاہلیت کی کون سی ایسی برائی ہے جو ہم مسلمانوں کے معاشروں میں موجود نہیں ۔جب ہم اللہ پر ایمان لاتے اور حضور اکرمؐ کی محبت کا دم بھرتے ہیں تو ان کے بتائے ہوئے راستے کی اتباع ہم سب کا فرض ہے۔
آج کے دن جب ہم عید میلادالنبیؐ کا جشن منا رہے ہیں ہمیں اس بات پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو حرزِ جاں کیوں نہیں بنا سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں رسم اذاں تو موجود ہے روح بلالی ؓ نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات کو تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنا چاہئے تھالیکن بعض اوقات تو مسلمانوں کی حرکتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ زبان سے انہوں نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن اِسے اپنی زندگیوں میں رائج نہیں کیا۔ سال بھر جہاں ہم پر پیارے نبیؐ کی رحمت کا سایہ فگن رہتا ہے نیکیوں کی جانب دوڑتے جہاں ہم مساجد کو آباد بھی کرتے ہیں،اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن صدحیف کہ قتل وغارت گری ،خواتین کے ساتھ بدسلوکی بھی،ڈاکے ، چوریاں اور ذخیرہ اندوزی بھی جاری رہتی ہے ۔دن دیہاڑ پر بھی اشیامہنگی کرنے کاخصوصی اہتمام ہوتا رہتا ہے۔اس رویئے کاجایزہ لیا جائے تو افسوس کہ مسلمانوں کا طرزِ عمل کسی صورت قابل تقلید نہیں ٹھہرتا۔آج کے روز حضور اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا دن مناتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ کیا ہم نے اپنے ملک کو اس معاشرے کا نمونہ بنا دیاہے جو اسلام کا مطلوب ومقصود ہے اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم روزِ قیامت کس منہ سے شافع محشر ؐ کا سامنا
کریں گے؟

ای پیپر دی نیشن