خالدہ جمیل
12 ربیع الّاول کا دن پیغمبر اسلامؐ کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اسے ایک پرمسرت، مبارک دن اور عید کے طورپر مناتے ہیں اور یہ دن رسول اللہ ؐ کی شان نزول بیان کرنے کیلئے وقف ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐکے اُسوہ حسنہ کی اطاعت دونوں جہاں کی سعادت کا سرچشمہ ہے۔ اگر مسلمان حضور اکرمؐ کے عظیم الشان اخلاق حسنہ کو مثال بنا کر ان کے مطابق زندگی بسر کریں تو اقوام عالم میں وہ سب سے اُونچی جگہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور دوسروں کیلئے اس کی پیروی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
12 ربیع الاول کو دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں۔ عظیم الشان جلوس نکالے جاتے ہیں۔ شاندار جلسے کئے جاتے ہیں۔ تمام فرزندان (توحید) اسلام اپنے مذہبی، سیاسی، ذاتی اور مقامی اختلافات کو ترک کر کے اپنے آقاء مولا کے احترام میں عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اس مبارک دن کے حوالے سے ہمارا فرض ہے ایک امت ہونے کا شاندار مظاہرہ کریں۔ جلسوں کے ذریعے تمام اقوام عالم کے سامنے پیغمبر اسلام ؐ کی سیرت تعلیم اور تاریخ کی نمائندگی اور ترجمانی کی جائے ہر سو سادگی، عظمت اور وسعت قلبی کا پیغام دیں جو حضرت محمد رحمتہ للعالمین کی پاک شخصیت کے شایان شان ہو۔ انسانیت کی ساری تاریخ میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جسے پیغمبر اسلامؐ جیسی مشکلات کا سامنا ہوا ہو پیغمبر اسلامؐ کا حقیقی معجزہ ہی ہے کہ آپ نے ؐمشکل ترین راستوں کو طے کر کے بھٹکے ہوئے لوگوں کی ایک ایسی پست ترین قوم کو علم و اخلاق اور عروج و ترقی کے ایسے مقام تک پنچا دیا جس کی بلندی کا آج تصّور کرنا بھی مشکل ہے۔
آپ ؐ کے ملک وقوم اور انسانیت کیلئے پیغام نے دنیا بھر کی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ تمام معاشرہ شراب سے پاک ہو گیا۔ چوری اور غارت گری نابود ہو گئی۔ بت پرستی کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا۔ صدیوں کی عداوتیں اور کینے مٹ گئے۔ ملک کے ہر گوشے میں اخوت مساوات اور جمہویت کے فرمان جاری ہونے لگے۔ وہی قبائل قریش جو چند سال پہلے زندہ لڑکیوں کو زمین میں زندہ دفن کرتے تھے، اب انہیں اپنی جائیدادوں میں شریک کرنے لگے۔ اب عرب میں زمین سے نظر اٹھا کر چلنا بھی عیب تھا۔ وہ لوگ جو وحشت و خونخواری کے پیکر تھے۔ اب دن میںپانچ نمازوں کے عادی بن گئے اور راتوں کو خدا کے سامنے سربسجود رہتے ۔ بوڑھی عورتیں ہاتھوں میں سونا لیکر صفا سے یمن تک صفر کرتی تھیں اور انہیں کوئی ستانے والا نہیں تھا۔ غلاموں کو مساوات کا درجہ دیا گیا۔ بحیرہ کو برتری کا شرف حاصل ہوا۔ قوم جس کا ذریعہ معاش کل تک غارت گری تھا۔ اب اس کے فرزند زکوۃ دیتے تھے اور ہر سال اپنی آمدنی کا چالیسواں حصّہ یتیم بحیرہ، مسافر اسیر اور مقروض کی امداد میں صرف کرتے تھے۔ ہر جماعت اور فرد کیلئے اللہ کی طرف سے ایک حق مقرر تھا۔ عدالت پولیس اور فوج دار کے خوف کے بغیر ہر شخص اللہ ہی کے ڈر سے اس حق پر کار بند ہوتا تھا۔ یہ تبدیلی پیغمبر اسلام کے بائیس تیئس سالہ مصائب کے بعد ایسا معجزہ ہیں کہ انسانی تاریخ میں اس کا جواب نہیں ملتا۔
محمد رسول اللہؐ نے جس مذہب کو پیش کیا ہے اس میں دین اور دنیا کی تفریق اگر کسی معنی میں ہے بھی تو قوموں کے امتیاز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ نیتوں کے فرق کی وجہ سے ہے اور یہی وہ راز ہے جس کی بنا پر اسلام جب دین بن کر آیا۔ تو ساتھ ہی سلطنت و حکومت کا پیغام بھی لایا۔
تیرا سکہّ رواں کل جہاں میں ہوا
اس زمین میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب، کیا عجم سب ہیں زیرنگیں
تجھ سا کوئی نہیں۔ تجھ تا کوئی نہیں
میلادالنبیﷺ کی اہمیت و فضیلت
Nov 21, 2018