وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھی صنفی تفریق کا نشانہ بنایا گیا: جولیا گیلارڈ

آسٹریلیا (نوائے وقت نیوز) دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں شمار ہونے والے کئی جزیروں پر مشتمل ملک آسٹریلیا کی سابق پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیر اعظم کا اعزاز رکھنے والی جولیا گیلارڈ نے کہا ہے کہ انہیں ملک کے سب سے اہم اور طاقتور عہدے پر براجمان ہونے کے باوجودصنفی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔57 سالہ سالہ جولیا گیلارڈ نے اپنے ساتھ نازیبا رویے اور صنفی تفریق پر 5 سال بعد خاموشی توڑی ہے اور بتایا ہے کہ انہیں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔خیال رہے کہ جولیا گیلارڈ 2010 میں آسٹریلیا کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی تھیں۔ان کا تعلق لیبر پارٹی سے تھا وہ اس سے قبل ملک کی پہلی خاتون وزیر تعلیم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی پہلی خاتون سربراہ بھی بنی تھیں۔جولیا گیلارڈ کی حکومت اگرچہ محض 3 سال تک جاری رہی۔تاہم انہیں اس عرصے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔انہیں نہ صرف انتظامی معاملات کو حل کرنے میں مشکلات پیش آئیں بلکہ انہیں جنسی تفریق کا بھی سامنا رہا۔جولیا 50 سال کی عمر سے قبل وزیر اعظم بنی تھیں۔جولیا گیلارڈ کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی فیمنسٹ تھیں اور انہیں صنفی تفریق جیسے مسائل ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتے تھے۔تاہم ان پر سنگین نامناسب اور نازیبا الزامات لگائے گئے۔سابق خاتون وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں احتجاجوں کے دوران جنس پرستی کا نشانہ بنایا گیا۔ اور ان کے خلاف نازیبا اور نامناسب نعرے اور الفاظ استعمال کیے گئے۔جولیا گیلارڈ کا کہنا تھا کہ انہیں احتجاجوں کے دوران ’کتی‘ (Bitch) سے تشبیح دی گئی۔ اور ان کے سامنے ہی ان کے خلاف نازیبا نعرے لگائے گئے۔

ای پیپر دی نیشن