احتجاج کی سیاست کیا ہمارے سیاسی کلچر کا حصّہ ہے، یا ہم نے اسے اپنی سیاست کی پہچان بنا لیا ہے؟ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں طاہر القادری کا زبردست دھرنا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں تحریک انصاف کا 126دن کا دھرنا بڑی مثالیں ہیں۔جسے دوسری جماعتوں نے سیاست میں اپنی پہچان بنانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
اب مولانا فضل الرحمن بھی اپنے کارکنوں کی ایک فوج کے ہمراہ سڑکوں پر نکلے۔ انہوں نے 27اکتوبر کو سکھر سے اپنے مارچ کا آغاز کیا جسے ’’آزادی مارچ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر وہ سندھ سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوئے اور اسے عبور کرتے ہوئے پاکستان کے کیپٹیل اسلام آباد کو اپنی تحریک کا ہدف اور مرکز بنا لیا۔ اُن کا پڑائو راولپنڈی، اسلام آباد کے قریب پشاور موڑ پر تھا۔ جہاں ایک وسیع و عریض گرائونڈ میں اُن کا بسیرا یا پڑائو رہا۔ یہاں خیمے لگ گئے۔ کھانے پینے کی دکانیں سج گئیں اور جمعیت علمائے اسلام اپنی تحریک یا آزادی مارچ کو انتہائوں تک پہنچانے کیلئے وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے پر ڈٹ گئی کہا دھرنے والے اُسی وقت واپس جائینگے جب وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دے دینگے۔ مولانا فضل الرحمن کے کنٹینر پر اسفند یار ولی، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، محمود اچکزئی اور دیگر رہنما بھی آئے اور مجمعے سے خطاب کرتے رہے۔ ہر ٹی وی چینل نے رہنمائوں کے خطاب کو لائیو دکھایا اور پورے ماحول کی کوریج کی۔ اس دوران اسلام آباد کو کنٹینر لگا کر مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ ریڈ زون تو پوری طرح اسلام آباد پولیس، ایف سی اور رینجرز کے کنٹرول میں تھا۔ یعنی پورے اسلام آباد کو مختلف فورسز نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا تا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے ۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ مولانا کے کارکنوں کی طرف سے بھی امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ ’’آزادی مارچ‘‘ کراچی اور سکھر سے چلا، پنجاب میں داخل ہوا۔ اسلام آباد تک پہنچا لیکن کہیں بھی نہ کوئی توڑ پھوڑ ہوئی، نا ایسا کوئی مسئلہ درپیش آیا کہ پولیس ’’انِ ایکشن‘‘ ہوتی۔ سب معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے چلے گئے۔ اہم مرحلہ اسلام آباد کو مولانا کے کارکنوں کی آمد سے بچانا تھا۔ مقامی انتظامیہ اور جمعیت علمائے اسلام کی مقامی قیادت کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پا گیا تھا کہ وہ پشاور موڑ کی سپورٹس گرائونڈ سے آگے نہیں جائینگے ۔ مولانا نے بھی اس معاہدے کی پاسداری کی اور اپنے کارکنوں کا ایک وسیع جمِ غفیر ہونے کے باوجود آگے نہیں بڑھے یعنی اسلام آباد میں داخل نہیں ہوئے۔ اس دوران حکومت نے بھی مولانا سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی قائم کر دی جو وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کام کرتی رہی۔ اس کمیٹی میں چیئرمین سینٹ، اسپیکر نیشنل اسمبلی، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اسد عمر شامل تھے۔ لیکن مولانا نے کہا کہ حکومتی کمیٹی اُن کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل رہبر کمیٹی سے مذاکرات یا بات چیت کرے۔ پھر ایسا ہی ہوا، انکے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ بالآخر کمیٹیوں نے ملنا اور مذاکرات کرنا چھوڑ دیا۔ تاہم مولانا نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں چھوڑا اس با ت پر مُصر اور بضد رہے، اور ہیں کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔تیرہ روزہ آزادی مارچ یا دھرنے کے بعد ایک رات خود ہی اعلان کر دیا کہ وہ یہاں سے واپس کوچ کر رہے ہیں۔اُن کا پڑائو اب ہر صوبے، ہر شہر میں ہو گا۔ وہ شہر اور سڑکیں بند کریں گے اور ’’احتجاج‘‘ کا یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وزیراعظم عمران خان مستعفی نہیں ہو جاتے۔
مولانا فضل الرحمن کے سیاسی رجحانات اور اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کے خلاف تند و تیز منفی بیانات اپنی جگہ، لیکن مولانا صاحب فوج کے خلاف بھی کھلم کھلا دشنام طرازی کر تے رہے اور اس معاملے میں کافی آگے نکلتے دکھائی دیئے۔ یہ رجحان یا منفی سوچ کیا مولانا صاحب کے اپنے ذہن کی اختراع ہے یا اسکے پیچھے کچھ اور ہے، کسی اور کے ایما پر وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اس کا سراغ لگانا اور اس کی تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مولانا پر یہ الزام بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کارفرما ہیںلیکن ان تمام قیاس آرائیوں کو ختم کرنا اور الزامات کی حقیقت کو سامنے لانا اب حکومت اور حکومتی ایجنسیوں کا کام ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ مولانا اگر ایک دینی جماعت کے سربرا ہ ہیں اور قرآن و سنت کے حوالے سے پاکستان بھر میں مدرسوں کا ایک وسیع نیٹ ورک یا نظام چلا رہے ہیں تو انہیں سیاسی معاملات میں ہرگز داخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہماری ملکی سیاست کیچڑ اور دلدل سے بھری ہے۔ مولانا صاحب سے قوم کے چند سوالات ہیں کہ(1) اسلام آباد اپنے اس دھرنے کے دوران اور بحیثیت کشمیر کمیٹی چیئرمین کشمیر کیلئے لب کشائی کیوں نہیں کی؟ (2)ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں دھرنے کے دوران لب کشائی کیوں نہیں کی؟ (3)مولانا فضل الرحمن صاحب مہنگائی کے خلاف آپ نے بات کیوں نہیں کی؟ (4)مولانا صاحب کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔اللہ تعالی پاکستان کو دشمنوں سے بچائے۔آمین