روشن خیالی اور جذبہ خیر سگالی دو ایسی لفظی اصطلاحات ہیں جن کو عملی طور پر اپنانے کیلئے بیشتر قوموں کو یا تو بہت فراخ دل ہونا پڑتا ہے یا اپنی غیر ت وحمیت کا جنازہ نکالنا پڑتا ہے لیکن زندہ جاوید قومیں فراخ دل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اقدار اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتیں۔لیکن بعض اوقات کسی بھی ملک کی کچھ نا عاقبت اندیش حکومتوں کے غلط وقت پر غلط پالیسیاں اپنانا افراد ملت کے زخموں پر نمک پاشی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ قومی بقا کو خطرے میں ڈالتے ہوئے شہریوں میں انتشار پیدا کرنے کا بھی ذریعہ بنتی ہیں۔وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان دو قومی نظریہ کی اساس پرمعرض وجود آنے والا ملک ہے۔ان گنت اور لا زوال قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی اور ریاست پاکستان پر اسکے شہریوں کے فرائض حب الوطنی کے تقاضے بھی اتنے ہی بلند اور بالا ہیں جتنا کہ قوم کے محسن بابائے قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کے حصول اور جدو جہد میں جو پیمانے مقرر کر رکھے تھے لیکن کیا وجہ ہے کہ کچھ حکمرانوں کے ذاتی یا پارٹی کے فیصلے قائد کے سنہرے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہویء قومی مفادات کو پھینٹ چڑھانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے۔کرتار پور راہداری ان دنوں ایک ہاٹ ایشو بنا رہا ہے اور ابھی تک ہے۔کچھ پاکستانی اسکے حق میں اور بیشتر اس قدم کی مخالفت میںآواز نکالی۔اور ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نظر کے تحت سوچ اور دیکھ رہا ہے ،کرتار پور رہدار ی کے کھل جانے پر شادیانے بجانے والوں کے بارے میں بات کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو درپیش مسائل میں سے سب سے زیادہ حل طلب مسئلہ ہی یہی تھا۔اور عالمگیری کی سطح پر بھی سب سے حل طلب مسئلہ بھی کرتا ر پور راہداری کا کھلنا تھا۔ جبکہ اسکے بر عکس دشمن ہمسایہ ملک اکھنڈ بھارت جو کہ اپنے آپ کو ایک سیکولر (لا دین )ریاست گردانتا ہے وہاں نہ صرف تمام قسم کی اقلیت جن میں مسلمان،عیسائی،یہودی ،سکھ حتیٰ کہ ہندو قوم کی نچلی ذاتیںعدم تحفظ اور بنیادی حقوق سے محروم ہیںبلکہ اس ضمن میں بلند ہونیوالی تمام آوازں کو نسل کشی اور ہندو دہشت گردی کے ذریعہ دبایا بھی جا رہاہے اور مقبوضہ کشمیر میں چار ماہ سے زیادہ کے عرصہ کا لاک ڈائون اور مقبوضہ وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کرتار پور راہدری کیلئے بے چین و بے قرار حکمرانوں کی اس سے بڑھ کر بے عملی کیا ہو گی ایک طرف تو بے بس اور نہتے کشمیریوں کی آزاد حیثیت کو ختم کرنے پر زبانی جمع خرچ اور موم بتی مارکہ احتجاج اور جبکہ دوسری طرف تاریخ کی بد ترین سطح پر پاک بھارت کشیدگی کے با وجود بھارتی سکھ شہریوںکی مقدس مقام کی آنا فاننا راستے کا کھولنا،تعمیر اور نرم ترین ویزہ پالیسی کے ساتھ بھاری پاکستانی بجٹ کا مختص کیا جانا یا تو کنفیوز خارجہ پالیسی یا پھر عوام کو کنفیوز کرنے کی کوشش ہے جو کہ ابھی تک ہر محب وطن پاکستانی کی سمجھ سے باہرہے بیشتر پاکستانیوں کو اختلاف اس بات پر نہیں کہ راہداری کیوں کھولی گئی؟ یا سکھوں کو مقدس مقام تک رسائی کیوں دی گئی؟اختلاف صرف یہ اس قدم کو اٹھانے کے لئے وقت کا انتخاب انتہائی غیر موزوحالات میں کیا گیا۔اختلاف یہ کہ مقبوضہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کر کرتار پور راہداری پر خیر سگالی کیوں؟اختلاف یہ کہ نہتے مسلمانوں کی نسل کشی پر بدلے میں بھارتی شہریوں کیلئے حکومت پا کستان سر تاپانہال کیوں؟اقلیت وہ ہیں جوکہ پاکستان کے شہری ہیں۔اقلیت وہ نہیں جو کہ بھارت کے شہری ہیں،تو بھارتی شہریوں کو پاکستان میں براہ راست مقامات تک رسائی دینے میں حکومت بے چین کیوں؟اختلاف یہ کہ کشمیریوں کی آئینی حیثیت کو بحال کرانے اور انکے حق خود ارادیت کے تحت کچھ لو اور دو کی بنا پر سمجھوتہ کیے بغیر راہداری کیوں کھولی گئی؟اختلاف یہ کہ ادھر کرتار پور راہداری کی عظیم الشان اور فقید المثال تقریب جاری اور ادھر اسی دن بھارتی انتہا پسندی کی صورت میں انڈین ہائی کورٹ کی بابری مسجد کے خلاف ہندوئوں کے حق میں فیصلے سے تیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے حقوق پر شبِ خون کیوں؟خیر سگالی وہاں ہوتی ہے جہاں بدلے میں دوسری قومیں خیر ڈالیں ،نہ کہ شر۔اور آج کی سفاکانہ عالمی سیاست میں خیر اور وہ بھی دشمن ملک سے سوائے کبوتر اور بلی کے کھیل کی مانند کچھ نہیں۔ اختلاف اس بات پر کہ بلا ضرورت ایثار اور قربانی پراور وہ بھی ایسے جیسے سوئے ہوئے بچے کا منہ چوما جائے اور اس کی کوئی قدر ہی نہ ہو۔اختلاف یہ کہ پاکستان میں چار سو مندروں کی بحالی غرضیکہ اس علاقہ میں ہندو اقلیت آباد ہے یا نہیں۔مندر صفہ ہستی سے مٹ چکے ہیں یا نہیں۔بس حکمرانوں کو بحالی کا تمغہ سجانا ہے ۔یا پھر 1973 میں شورش کشمیری کی لکھی جانے والی کتاب’’ عجمی اسرائیل ‘‘ میںکی گئی پیش گوئی کے عین مطابق مستقبل میں بننے والی سکھوں اور قادیانیوں کا مشترکہ اور متحدہ وطن ’’سکھ احمدی ریاست‘‘ کی جانب ایک راہ ہموار کرنے کی ایک کڑی ہے؟