انتہا پسند اور نازی ازم کے راستے پر چلتی مودی سرکار کی انسانیت سوز پالیسیوں نے بھارت کو خونخوار اژدھے کی شکل دے دی ہے جو پڑوسی ملکوں کے لئے عذاب بن چکا ہے اور ان کی اراضی پر ناجائز قبضے کا وطیرہ اپنا چکا ہے۔ اس ریاستی قبضہ گروپ نے بھارت کا جو نیا نقشہ جاری کیا ہے اس میں پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر گلگت بلتستان کو اپنا علاقہ ظاہرکر کے بین الاقوامی قانون کا مذاق اڑایا اس نئے نقشے میں پڑوسی ملک نیپال کے علاقے کالا پانی کو بھی بھار ت کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے جس کے خلاف نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے سری لنکا بھی اس قبضہ گروپ کی ’’ہوس اراضی‘‘ کا شکار ہو چکا ہے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں شامل کر لیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے جس کا نقشہ را ئے شماری کے ذریعے کرانے کا وعدہ خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے کیا تھا مگر20سال سے مختلف بہانے کر کے اسے ٹالا جا رہا ہے۔ آخراپنے جائز حق کیلئے کشمیری عوام پر امن جدوجہد کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے انکے پر امن مظاہروں کو کچلنے کیلئے آٹھ لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی گئی جو کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی گھناونی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ بھارتی حکمران اور ان کے فوجی بشمول افسران ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ بے شرم و بے حیا ہیں‘ ان کی گھٹیا ترین اور نیچ سوچ کا اندازہ سابقہ فوجی جنرل کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری خواتین کے ساتھ ریپ کو جنگی ہتھیار قرار دینے سے لگایا جا سکتا ہے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کی آئے روز شہادتوں ‘ تشدد و پیلٹ گنوں سے زخمی ہونے‘ بلا جواز گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے حتی کہ سینکڑوں کی تعداد میں چودہ پندہ سال اور اس سے بھی کم بچوں کو بھی گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے مذموم مقاصد والدین کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کرنا ہے۔نیپال کے وزیراعظم کے پی او لی نے مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ کالا پانی سے بھارتی فوج کو فوری طور پر نکالا جائے اور شبہ کیا کہ نیپال اپنی ایک انچ زمین پر کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیگا۔ انہوں نے کہا بھارت کے نئے نقشے میں نیپال کے علاقے کالا پانی کو بھارتی علاقہ ظاہر کرنا جارحانہ مذموم کارروائی ہے یہ غور طلب ہے کہ مسلمانوں سے نفرت و عنادکے باعث ان کے ساتھ زیادتیوں کا رویہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن نیپال تو ہندو ریاست ہے یہ گھٹیا پن کی انتہا ہے کہ ان کے ہم مذہب ہونے کا بھی کچھ خیال نہیں ہے۔ پڑوسی ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارتی حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ پڑوسی ریاست بھوٹان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر وہاں بھی بھارت کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
بھوٹان کے میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھارت کو کمرے میں گھس آنے والا ہاتھی قرار دیا گیا ہے۔
ادھر بھارت میں شہروں اور مقامات اور اہم تاریخی عمارتوں کے اسلامی ناموں کی جگہ ہندوئوں کے نام رکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اب تک بڑی تعداد میں اسلامی یا مسلمانوں سے منسوب ناموں کو ہندو شناخت دے دی گئی ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش کے انتہا پسند وزیر اعلیٰ جو ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس میں بھی بہت سرگرم ہے آدیتیہ ناتھ یوگی نے تاریخی شہر آگرہ کا نام بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے حالانکہ آگرہ نہ تو اسلامی نام ہے اور نہ ہی اس نام سے کسی مسلمان کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ آگرہ شہر سے تاج محل سمیت مسلمانوں کی وابستگی کی ایک تاریخ ہے اس لئے انتہا پسند وزیراعلیٰ کو یہ نام ہضم نہیں ہو رہا اور اس نے امبید کر یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسروں سے کہا ہے کہ وہ آگرہ کا نام تبدیل کر کے ’’اگروان‘‘ رکھنے کا جواز تلاش کریں لہٰذا چند روز میں بابری مسجد کی مندر کی تحقیق کی طرح یہ ’’انکشاف‘‘ بھی سامنے آجائے گا کہ آگرہ کا قدیمی نام ’’اگروان‘‘ ہی تھا جو بعد میں آگرہ ہو گیایہ بھی مسلمان دشمنی کا کھلا مظاہرہ ہے الہٰ آباد شہر کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے جبکہ تاریخی مغل سرا کے ریلوے سٹیشن کا نام بھی ’’دین ریال اپا سے‘‘ رکھا جا چکا ہے۔ممتاز کشمیری رہنما ‘ یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے بھارتی سابق بھارتی جنرل ایس پی ہنساکی جانب سے بھارتی فوجیوں کی کشمیری خواتین سے زیادتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حمایت کی شدید مذمت کی ہے انہوں نے کہا اس سے بھارتی گندی ذہنیت آشکار ہو گئی ہے لیکن مودی اور اسکے بے حیا حواریوں کو یاد رکھنا چاہئے کشمیری اپنی بیٹیوں کی ابرو پر مرمٹنا جانتے ہیں‘ ایس پی سنہا کے بیان سے آر ایس ایس اور ہندو توا کی فسطاتی سوچ بے نقاب ہونے لگی ہے ایسی گندی ذہنیت کے حامل مودی اور اس کے حواری جانور کہلانے کے بھی لائق نہیں۔ 106 دن کا لاک ڈائون کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد نہیں کر سکا انہیں انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کی سہولت بھی میسر نہیں ہے دنیا کو بھارتیوں کی اس گندی سوچ کا نوٹس لینا چاہئے۔‘‘
اگرچہ اخلاق سے عاری فسطائیت کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلسل جاری ہے مگر عالمی برادری نے بھی اس جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘ جو بجائے خود شرمناک ہے ان کی جانب سے اپنی نام نہاد انسانیت نوازی کا ثبوت دینے کے لئے یہ بیان جاری کر دیا جاتا ہے بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے مگر بھارت پر یہ دبائونہیں ڈالا جاتا کہ وہ اپنے وعدہ کے مطابق کشمیریوں کو حق خوارادیت دیکر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی راہ نکالے جس کی وجہ سے خطے میں امن شدید خطرہ میں ہے۔