ایک کہاوت ہے کہ آزمائشیں انسان کو کندن بنا دیتی ہیں عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی مسائل اور مصائب نے گھیر لیا معیشت جو کہ عرسہ دراز سے قرضوں کے بوجھ میں دبی مصنوعی تنفس پر چل رہی تھی اسکو سنبھالا دینے کے لئے نئی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ وسائل میں اضافہ اور کرپشن کے خاتمے کے لئے جن مضبوط اداروں کی ضرورت تھی اس کے فقدان نے مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ کیا خان صاحب کی ایمانداری شک وشبہ سے بالا ہے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے صدیوں سے بگڑے نظام کی اصلاح بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کہ جوئے شیر لانا اب چاہے اپوزیشن کے وار ہوں یا خان صاحب کی راہ میں مسائل کے خار ہوں یا پھر کورونا کے جارحانہ حملے وہ اسی عزم سے ڈٹے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ پہلے دن سے پر عزم ہیں ایک مغربی جرنلسٹ پاکستان آیا اس سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے اندارے کے مطابق پاکستان میں مسائل کی وجہ کیا ہے خان صاحب نے جواب دیا ۔اس نظام کے خواہشمند ہین جس کا خواب قائد نے دیکھا لیکن کسی نظام کی درستگی کے لیے اس سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جو اسے خراب کرنے میں لگا لیکن ہم بحیثیت مجموعی ان سے روز کا حساب مانگ رہے اور پھر متحد ہوکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو دودھ کی نہریں بہاؤ یا گھر چلے جاؤ اگر ہم حساب کتاب اور احتساب کا اصول ستر سال پہلے لاگو کرلیتے اور اقتدار میں آنے والی پارٹی کا مواخذہ کر لیا جاتا تو آج ملک ترقی کی راہ پر دوڑ رہا ہوتا زبانی جمع خرچ اور سب اچھا کی رپورٹ نے نہ تو کوئی مثبت سمت متعین کی اور نہ ہی قومی مفادات کا جذبہ اجاگر ہوسکا ایک شخص پاگل خانے گیا تو دیکھا کہ ایک پاگل بیٹھا پاگل خانے میں کچھ لکھ رہا تھا اس شخص نے پاگل کو بلایا اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو تو اس نے کہا کہ میں نے دوسو صفحات پر مبنی کتاب لکھی ہے وہ شخص حیران ہوا اور کہا جاؤ کتاب لے کر آؤ کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ گھوڑا کیسے دوڑتا ہے باقی ایک سو ننانوے صفحات پر لکھا تھا ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک ہماری بہتر سالہ تاریخ بھی اس کتاب سے مختلف نہیں امجد اسلام امجد نے لکھا تھا
زندگی کے پرچے کے
سب سوال مشکل ہیں سب سوال لازم ہیں
عمران خان مرد میدان ہیں اور مرد میدان کی پہلی خوبی مسائل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہے ہیگل کے نزدیک ایتھنز کی قدیم بستیاں اس لئے طاقتور ہوئیں کہ مسلسل بیرونی دباؤ اور اندرونی سازشوں کو برداشت کرتی رہیں اور بروقت قوت فیصلہ اور جستجو نے ان کے لئے نئی راہ متعین کی کسی بھی حکمران کی کامیابی کے لئے سب سے ضروری امر صفوں میں اتحاد تھا اور باہمی مثبت مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنا اور عوام کی خدمت اولین مقصد ہے ہم بحیثیت مجموی بند گلی میں کھڑے ہیں اور اس سے نکلنے کے لئے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے کرپشن کی روک تھام اور اس روایت کو ختم کرنا ہے کہ سیاست مال بٹورنے کا ذریعہ بنی رہی ہے جن سیاستدانوں نے راہ دکھانی تھی وہ بے راہ رو ہیں اب اگر ہم ایک دوسرے کا دست راست بن سکیں گے گے تو کچھ بہتری کی امید قومی یک جہتی وقت کا تقاضا ہے وگرنہ وہی کھیل چلتا رہے گا جو روز اول سے چل رہا ہے
٭…٭…٭