حکومت اور آزمائشیں

Nov 21, 2020

پروفیسر فہمیدہ کوثر

ایک کہاوت ہے کہ آزمائشیں انسان کو کندن بنا دیتی ہیں عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی مسائل اور مصائب نے  گھیر لیا  معیشت جو کہ عرسہ دراز سے قرضوں کے بوجھ میں دبی مصنوعی تنفس پر چل رہی تھی اسکو سنبھالا دینے کے لئے نئی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ وسائل میں اضافہ  اور کرپشن کے خاتمے کے لئے جن مضبوط اداروں کی ضرورت تھی اس کے فقدان نے مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ کیا  خان صاحب کی ایمانداری شک وشبہ سے بالا ہے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے صدیوں سے بگڑے نظام کی  اصلاح بالکل ایسے ہی ہے کہ  جیسے کہ جوئے شیر لانا اب چاہے اپوزیشن کے وار ہوں یا  خان صاحب کی راہ میں  مسائل کے خار ہوں یا پھر کورونا کے جارحانہ حملے وہ اسی عزم سے ڈٹے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ پہلے دن سے پر عزم ہیں ایک مغربی جرنلسٹ پاکستان آیا اس سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے اندارے کے مطابق پاکستان میں مسائل کی وجہ کیا ہے   خان صاحب  نے جواب دیا ۔اس نظام کے خواہشمند ہین جس کا خواب قائد نے دیکھا لیکن کسی نظام کی درستگی کے لیے اس سے کہیں  زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جو اسے خراب کرنے میں لگا لیکن ہم بحیثیت مجموعی ان سے روز کا حساب مانگ رہے اور پھر متحد ہوکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو دودھ کی نہریں بہاؤ یا گھر چلے جاؤ اگر ہم حساب کتاب اور احتساب کا اصول ستر سال پہلے لاگو کرلیتے اور اقتدار میں آنے والی پارٹی کا مواخذہ کر لیا جاتا تو آج ملک ترقی کی راہ پر دوڑ  رہا ہوتا زبانی جمع خرچ اور سب اچھا کی رپورٹ نے نہ تو کوئی مثبت سمت متعین کی اور نہ  ہی قومی مفادات کا جذبہ اجاگر ہوسکا  ایک  شخص پاگل خانے گیا تو دیکھا کہ ایک پاگل بیٹھا پاگل خانے میں کچھ لکھ رہا تھا  اس شخص نے  پاگل کو بلایا  اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو تو اس نے کہا کہ میں نے دوسو صفحات پر مبنی کتاب لکھی ہے وہ شخص حیران ہوا اور کہا جاؤ  کتاب لے کر آؤ کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ گھوڑا کیسے دوڑتا ہے باقی ایک سو ننانوے صفحات پر لکھا تھا ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک ہماری بہتر سالہ تاریخ بھی اس کتاب سے مختلف نہیں امجد اسلام امجد نے لکھا تھا 
زندگی کے پرچے کے 
 سب سوال مشکل ہیں                                       سب سوال لازم ہیں
عمران خان مرد میدان ہیں اور مرد میدان کی پہلی خوبی مسائل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہے  ہیگل کے نزدیک ایتھنز کی قدیم بستیاں  اس لئے طاقتور ہوئیں کہ مسلسل بیرونی دباؤ اور اندرونی سازشوں کو برداشت کرتی رہیں اور بروقت قوت فیصلہ اور جستجو نے ان کے لئے نئی راہ متعین کی کسی بھی حکمران کی کامیابی کے لئے سب سے ضروری امر صفوں میں اتحاد تھا اور باہمی مثبت مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنا اور عوام کی خدمت اولین مقصد ہے ہم بحیثیت مجموی بند گلی میں کھڑے ہیں اور اس سے نکلنے کے لئے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے کرپشن کی روک تھام اور اس روایت کو ختم کرنا ہے کہ سیاست مال بٹورنے کا ذریعہ بنی رہی ہے جن سیاستدانوں نے راہ دکھانی تھی وہ بے راہ رو ہیں  اب اگر ہم ایک دوسرے کا دست راست بن سکیں گے گے تو کچھ بہتری کی امید قومی یک جہتی وقت کا تقاضا ہے وگرنہ وہی کھیل چلتا رہے گا جو روز اول سے چل رہا ہے 
٭…٭…٭

مزیدخبریں