اب اسے کیا کہیں کہ ہمارے یہاں سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کرپشن کی جوک ساری اخلاقیات چوس چکی ہے، یہ اخلاقی گراوٹ کا اثر ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کیخلاف جس لب ولہجے میں بات کرتے ہیں اسے سُن کر کو ئی ہمیں مہذب قوم ماننے کو تیار نہیں ۔شائستگی نام کی کوئی چیز سیاستدانوں کے قریب سے نہیں گزری۔گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کوخوش دلی تو کیا، بے دلی سے تسلیم کرنا تو دور کی بات الٹا دھاندلی کے شور نے پُر امن انتخابات کوہی گہنا دیا۔ سیاست کو مفاد کی دیمک چاٹ چکی ہے، اب نام کی سیاست رہ گئی، روح کب کی فنا ہو چکی، اس بات کا عملی مظاہرہ گلگت بلتستان میں دیکھنے میں آیا ۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ پُر امن انتخابات ہم نے نہیں دیکھے۔ موسم کی شدت بھی ووٹرز کے رستے میں حائل نہ ہو سکی۔ مرد وزن برفباری میں دشوار گزار راستوں سے گزر کر حقِ رائے دہی استعمال کرنے پہنچے۔اس کا کریڈٹ گلگت بلتستان کے عوام کو نہ دینا زیادتی ہو گی لیکن حسبِ سابق ان انتخابات پربھی ہارنے والوں نے دھاندلی کا الزام لگا کر اپنی دیرینہ روایت کو قائم رکھا،موجودہ انتخابات گذشتہ دونوں انتخابات سے کئی حوالوں سے مختلف تھے۔ تب ملک میں دو پارٹی سسٹم اتنا مستحکم تھا کہ تیسری جماعت کی گنجائش ہی نہ تھی ۔ دونوں میثاق جمہوریت کی آڑ میں باریوں کا تعین کر چکی تھیں،اب کی بار وفاق میں پی ٹی آئی برسرِ اقتدار ہے۔ نون لیگ ایک طرف کرپشن میں لتھڑی ہے تو دوسری طرف نواز شریف کے فوج مخالف بیانیہ نے اُسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پی پی پی بھی حالت کچھ مختلف نہیں۔ کرپشن سے اس کا دامن بھی داغدار ہے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر آج سندھ کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔پارٹی بھٹو خاندان سے زرداریوں کی لونڈی بن کر رہ گئی۔ دونوں جماعتیں نیب کے شکنجے میں جکڑی ہونے کی وجہ سے ، عوامی مقبولیت کھوہ چکی ہیں ۔ گلگت بلتستان میں یہ تیسرے عام انتخابات تھے۔ پہلا انتخاب 2009میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ’گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈسیلف گورنمنٹ‘ صدارتی آر ڈر کے تحت کراویا ، پی پی پی ہی اس میں اکثریتی پارٹی تھی جس نے پانچ سال حکومت کی۔ 2015میں نون لیگ مرکز میں حکمران تھی اسے یہاں بھی کامیابی نصیب ہوئی، آزاد کشمیر کی انتخابی تاریخ بھی اسی قسم کے نتائج سے عبارت ہے۔ جس جماعت کی مرکز میں حکومت ہو وہی آزاد کشمیراور ’جی بی‘ کا انتخاب جیتتی رہی ہے۔ اس تاریخی پس منظر کومد نظر رکھیں تو یہ باور کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھا کہ مرکز میںپی ٹی آئی حکمران ہے، وہی گلگت بلتستان کا انتخاب جیتے گی۔پی ٹی آئی بہت پہلے گلگت بلتستان صوبے کا عندیہ دی چکی تھی، پھر پی ٹی آئی کا مقابلا اخلاقی طور پر دیوالیہ پارٹیوں سے تھا، غیر جانبدار تجزیہ نگار پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت دیکھ رہے تھے۔کوئی مانے نہ مانے (کسی حد تک پراپیگنڈا ہی سہی) مہنگائی فیکٹر بھی ان کے جوڑوں میں بیٹھا۔ دوسرا حسبِ سابق پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں وہی غلطیاں دہرائیں جو وہ گذشتہ انتخابات میں کرتی آئی ہے۔ پی ٹی آئی نے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے الیکٹ ایبل پر بھروسہ کیا،نتیجاً نظریاتی کارکن آزاد اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ موجودہ انتخابات میں ایک تہا ئی اُمیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے، جو خاصی بڑی تعداد ہے۔چاروں صوبوں میں عوامی اعتماد کھوہنے کے بعد دونوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات سے اپنی ساکھ بحال کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ اس سے پہلے موجودہ حکومت سے چھٹکارے کا ہر حربہ ناکام ہوتا دیکھ کر دونوں نے PDMکے پلیٹ فارم سے مولانا کا کندھا استعما ل کرنے کی کوشش کی کہ انکے پاس مدرسوں کے بچوں کی صورت میں ایک طاقت ضرورہے مگرصرف تین جلسوں میں PDMکا حشر دیکھ کر مولانا کے خواب بھی چکنا چور ہوگئے۔ رہی سہی کسر فوج مخالف بیانے نے نکال دی۔چنانچہ دونوں پارٹیوں کا سارا فوکس گلگت بلتستان انتخابات پرتھا،کہ دونوں(ایک سابقہ ایک مو جو د ہ ) یہاں حکمران رہیں۔ بلاول نے کئی روزانتخابی مہم چلائی۔ اس کی دیکھا دیکھی مریم بھی قسمت آزمانے پہنچ گئیں، مگر دونوں کی دال نہیں گلی ،توانہوں نے دھاندلی کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا، شکست کادونوں کو یقین تھا،جس میں دونوں کے سابق وزراء اعلیٰ ہارگئے۔ شکست ماننے کی بجائے پی پی نے احتجاج کا ڈھونگ رچا کر زخوں پر مرہم کی کوشش کی، احتجاجی ریلی سے خطاب میںبلاول کا پُرجوش انداز میں یہ کہنا کہ ’’پی پی پی کے’ کھاتے‘ میں بارہ سیٹیں تھیں‘‘ معنی خیز ہے،جلسوں میں کرائے کے لوگ لا کرانہیںجیت کا زعم تھا،وہ کیا کہتے ہیں کہ پہاڑ سے گرا سنبھل سکتا ہے مگر نظروں سے گرا ہوا نہیں، عوام سے دھتکارے جانے کے بعد دونوں خودمذاق بنے کہ
آئے تھے سر پہ خاک اڑانے، اڑا چلے
آئے تھے سر پہ خاک اڑانے،اڑا چلے۔۔!
Nov 21, 2020