’’سیّد روح الامین لسانی و ادبی تناظر میں‘‘ مقالہ لکھ کر ثمینہ رشید شعبۂ اُردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے ایم۔ فل کی ڈگری حاصل کی۔ اِس کتاب کو پڑھا اور مختلف ادیبوں، نقّادوں کے تبصرے دیکھے۔ جس پر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے سیّد روح الامین کے بارے میں ’’فرزندِ اُردو‘‘ تحریر کیا۔ اُن کی ہی تحریر شدہ عبارت پیش ہے۔ ’’مَیں اپنی حد تک بجاطور پر روح الامین صاحب کو دورِ حاضر کا ایک مخلص و مستعد ’’فرزندِ اُردو‘‘ سمجھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ عزیزہ ثمینہ رشید کے اس کام سے دیگر مصنفین و مقالہ نگار بھی اپنے اطراف کے ایسے ہی ’’فرزندانِ اُردو‘‘ کو تلاش کریں اور اُردو کے نفاذ میں ان کی کاوشوں اورجدوجہد کو اپنے مطالعات کا موضوع بنائیں تاکہ ان ’’فرزندانِ اُردو‘‘ کا حق بھی ادا ہو، ان کی مزید حوصلہ افزائی ہو اور اِس طرح کے کاموں کے زیرِ اثر قوم میں اپنی قومی زبان کے نفاذ کے لئے جذبات اور کوششیں عام ہو سکیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں کہ ان کا یہ مستقل عمل میرے لئے یوں قابلِ رشک ہوتا ہے کہ اس طرح وہ دراصل ’’فرضِ کفایہ‘‘ ادا کرتے ہیں، جو ہم ادا نہیں کرتے۔ کاش! ہم سیّد روح الامین صاحب کی طرح جوش اور ولولے سے خود بھی سرفراز ہوں اور ان کی طرح اُردو کے نفاذ کے لئے، کچھ کر سکیں، کرتے رہیں۔
مقالہ نگار لکھتی ہیں کہ اِس مقالے کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل ’’سیّد روح الامین کے حالاتِ زندگی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ خاندانی پس منظر، پیدائش، تعلیم و تدریس او ر ادبی زندگی وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔باب دوم میں ان کی اُردو زبان کے حوالے سے کتب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ کالم نگار بھی ہیں۔ باب سوم وہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالموں کو کتابی شکل میں چھاپ دیا ہے۔ ان کی کالم نگاری کے بارے جائزہ لیا گیا ہے۔باب چہارم میں اُردو زبان کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف کا مفصّل جائزہ لیا گیا ہے۔ تعلیم و تربیت کے حوالے سے تبصرہ کرنے والوں میں ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، فرخ زہرا گیلانی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر شبیہ الحسن اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں : ’’اُردو زبان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اسے مولوی عبدالحق، سیّد عبداللہ، فرمان فتح پوری اور فتح محمد ملک کی صورت میں ایسے محبت کرنے والے مِلے جنہوں نے عوامی سطح پر اس زبان کی پذیرائی اور افادیت کو قومی تحریک بنا دیا۔ اِس تناظر میں، پاکستان کے معدنِ حُسن، گجرات کے سیّد روح الامین جس جوش اور محبت سے اُردو کے علمی ذخیرے کی بازیابی اور اسے حُسنِ انتخاب اور حُسنِ صورت سے مزّین کرنے کا کام کر رہے ہیں وہ اِس نوجوان اور ان کی کتابوں اور عزائم کے حوالے سے قومی سطح پر ان کا ایک ایسا نقش اُبھار رہے ہیں، جو اُردو سے محبت کرنے والے ہر فرد سے انہیں قریب تر کر رہا ہے۔‘‘
سیّد روح الامین نے اُردو زبان کی ترویج و ترقی اور نفاذ کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اقبالیات کے حوالے سے بھی نہایت عمدہ کتابیں مرتب کی ہیں۔ انہوں نے اپنی تالیفات کے انتخابات میں بھی ان کے مطالعہ کی وسعت اور جستجو نظر آتی ہے۔ انہوں نے موضوع کے اعتبار سے معیار اور افادیت کو مدِّنظر رکھا۔
اب تک ان کی گیارہ تصانیف مرتب ہو چکی ہیں، سات اُردو کے حوالے سے، دو اُردو لسانیات پر اور تین اقبالیات پر اور ایک کالموں کا مجموعہ ہے۔ ابھی ابھی ایک اور کتاب جس کا نام ’’ہماری اُردو ہمارا پاکستان‘‘ بھی منظر پر آچکی ہے۔ باقی تصانیف میں درج ذیل ہیں : ۱۔ ’’اربعین رضویہ‘‘ ۲۔ ’’پانچ دریا‘‘ ۳۔ ’’اُردو ہے جس کا نام‘‘ ۴۔ اُردو ایک نام محبت کا‘‘ ۵۔ ’’اُردو بطورِ ذریعۂ تعلیم‘‘ ۶۔ اُردو لسانیات کے زاویے‘‘ ۷۔ اُردو کے لسانی مسائل‘‘ ۸۔ ’’اقبال شاعری اور فکرومقام‘‘ ۹۔ ’’اُردو تاریخ و مسائل‘‘ ۱۰۔ اُردو کے دھنک رنگ‘‘ ۱۱۔ ’’اقبال فکروفن‘‘ ۱۲۔ ’’برسرِ مطلب‘‘۔ مزید کچھ تحریر کرنے سے پہلے ہمیں ’’ارمغانِ حالی‘‘ مصنّف پروفیسر حمید احمد خاں (سابق پرنسپل اسلامیہ کالج ، سول لائنز لاہور) و سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۶ بعنوان ’’سیرت نعمان‘‘ الطاف حسین حالی ؔ رقم طراز ہیں : ’’میرے نزدیک ریویو نگاری کا منصب صرف اِس بات کا دیکھنا ہے کہ مصنّف نے وہ فرائض، جن کو زمانے کا مذاق ہر نئی تصنیف میں اِس طرح ڈھونڈتا ہے، جس طرح پیاسا پانی کو، کس حد تک اور کِس درجے تک ادا کئے ہیں۔
پس جب ہم کسی کتاب پر ریویو لکھ رہے ہیں، ہم کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ مصنّف کی رائے جزئیاتِ مسائل میں نفسہٖ کیسی ہے؟ کیونکہ اِس کا فیصلہ کرنا، پبلک کا کام ہے، نہ کہ ریویو لکھنے والے کا۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کتاب کا عنوانِ بیان کیسا ہے؟ ترتیب کیسی ہے؟ طریقِ استدلال مذاقِ وقت کے موافق ہونی چاہیے یا جو مصنف اپنے ذہن میں ملحوظ رکھا ہے، وہ اِس سے حاصل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ ہم اِس ریویو میں صرف انہی باتوں سے بحث کریں گے اور ہرگز ریویو نگاری کی حد سے متجاوز نہ ہوں گے۔
کسی ادیب یا شاعر کی شخصیت کا ادبی وقار متعین کرنے سے قبل، اس کی ادبی خدمات کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے۔ سیّد روح الامین کی ادبی خدمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ’’اُردو زبان‘‘ کی ترویج و ترقی کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ آئے دن اپنے ادبی و ثقافتی ورثہ کو برقرار رکھنے بلکہ اِس میں روز بروز اضافہ کرنے میں بھی کوشاں ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف ۱۹۹۶ء میں آئی۔ نامور محققین اور ناقدین اُن کے فن کو سراہتے ہیں کیونکہ وہ سچے اور پکّے مُحبِ وطن پاکستانی ہیں۔ وہ اِس بات پر اظہار افسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنی قومی زبان اُردو کو نظرانداز کر کے، غیر ملکی زبان کو اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قومی زبان ہی کیسی بھی ملک و قوم کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ جو ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت سے جوڑتی ہے۔ سیّد روح الامین ’’تحریک نفاذِ اُردو‘‘ کے سرگرم رُکن ہیں۔ مزید براں وہ اپنی کتب میں اُردو زبان کو درپیش مسائل کا اِحاطہ بھی کرتے ہیں۔ اُردو لسانیات ایک خشک مضمون ہے۔ اس پر ابھی تک بہت کم کام ہوا ہے لیکن سیّد روح الامین نے اُردو لسانیات کے حوالے سے بھی نہایت عمدہ مضامین کے دو مجموعے مرتب کیے ہیں جو ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔