نیز اگر ان تعمیرات کے موجد انسان کو قرار دیا جائے تو ہزاروں کی تعداد کے مزدوروں سے ان تراشیدہ پتھروں کی بناوٹ اور ساخت ممکن نہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میں مزدوروں کے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے کا ثبوت بھی آثارِ قدیمہ کے متخصصین کی سمجھ سے بالا تر ہے ۔
جو گفتگو اس مضمون کے ذریعے اب تک ہم قارئین کے لئے لکھ چکے ہیں وہ اپنی جگہ ،لیکن آئیے ایک اور زاویے سے اہراماتِ مصر کی تعمیرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ قدیم مصریوں نے جب چونے اور گرینائیٹ کے بڑے بڑے پتھروں کو دُور وادی الملوک سے نیز دوسرے پہاڑوں سے جیزہ تک لے آئے کہ جن سے فرعون خوفو کا اہرام تعمیر کر سکیں۔ تو اہرام کے باہر والے زمین کی سطح کو سب سے پہلے چونے کے پتھروں سے ڈھانپا گیا تھا۔ اور انہیں اتنی صفائی اور باریکی سے پالش کیا گیاتھا کہ جب ان پر سورج کی شعائیں اور روشنی پڑتی تھی تو آسمان کے تاروں کی طرح چمکتے تھے اس بارے میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جب ان پتھروں سے روشنی ٹکرا کر نکلتی تھی تو ان کو چاند سے دیکھا جاسکتا ہو گا۔ لیکن وہ چونے کے پتھر اہرام سے متصل میدان میں موجود نہیں ہیں کیونکہ یہ تمام پتھر 14ویں صدی عیسوی میں آنے والے زلزلے میں زیر و زبر ہو گئے تھے۔ لیکن ہم خوفو کے اہرام کے بارے میں مضمون کے شروع میںیہ بتانا بھول گئے کہ خوفو کا اہرام آٹھ سائیڈوں والا اہرام ہے۔ نظامِ شمسی میں موجود نیلم نامی ستاروں کے جھرمٹ میں یہ اہرام بالکل سیدھ میں ہے نیز یہ اہرام Alpha Draconisنامی ستارے کی جانب مُڑا ہوا ہے ۔ ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ یہ اہرام زمین کے وسط میں ہے۔ زمین پر سے گزرنے والے تخلیاتی خطوط زمین پر دو ہی جگہ آپس میں ملتے ہیں ان میں سے ایک جگہ سمندر میں ہے اور دوسری جگہ وہ ہے جہاں اہرام تعمیر کیا جا چکا ہے ۔ یہ تمام حقائق اس حقیقت کے غماّز ہیں کہ اہرامات کو بنانے والے لوگ کس قدر ذہین اور قابل ترین لوگ تھے۔ یورپیئن بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اہرامات کے ذریعے فصلوں کے بیجوں کو محفوظ کرنا تھا۔ 1859ء میں ایک برطانوی سائنسدان جس کا نام جان ٹیلر تھا اس نے اہرمات کے مشاہدے اور اس کی تعمیر پر غورو خوض کے بعد یہ نتیجہ مشتہر کر دیا تھا کہ ان اہرامات کو جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنات نے یا دوسری کوئی خلائی مخلوق نے بنائی ہے ایسا بالکل نہیں انہیں بنانے میں انسانی ذہن کا عمل دخل ہے ۔ جان ٹیلر نے اپنے تجربے اور کلکولیشن کے نتیجے میں ایک سائنسی اصطلاح کا اضافہ کیا کہ خوفو کے Pyramidانچ اور برطانوی انچ تقریباً ایک جیسے ہیں ۔ جان ٹیلر کی تحقیق اور تجربے سے متاثر ہو کر سکاٹ لینڈ کا ایک سائنسدان چارلس سمتھ نے اس پر مزید تحقیق کر کے 1864ء میں 664صفحات پر مبنی ایک کتاب لکھی جس میں اہرامات کے حوالے سے حیران کن معلومات درج کیں اس کتاب کے بموجب اگرفرعون خوفو کے اہرام انچزمیں ناپا جائے تو اہرام کی تحقیق ایک ایسی تاریخی کتاب بن جائیگی جس کے تحت زمین پر ماضی میں رونما شدہ واقعات اور مستقبل میں زمین پر ہونے والے واقعات دونوں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ۔ خوفو کے اہرام کے اندر ایک گلی جو کہ عمودی راستہ ہے وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسییٰ علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ بتاتا ہے اور اگر آپ 33پرامیڈ انچز آگے کی جانب چلیں تو وہاں پر بننے والی ریڈنگ وہ تاریخ ہو گی جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ اس کتاب اور اس کے مصنف کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے زمین پر واپس آنے سے متعلق ہے ۔ اہرامِ خوفو کی تعمیر آثارِ قدیمہ کی تحقیق کے مطابق 2625قبل از مسیح وجود میں آیا محققین بتاتے ہیں کہ جیسا ہم گزشتہ سطور میں لکھ چکے ہیں کہ وادی الملوک کے پہاڑوں یا دیگر پہاڑوں سے ٹنوں وزنی وزنی پتھر اہرام کی جگہ جیزہ میں میں لائے گئے تھے ان پتھروں کو جیزہ تک پہنچانے کا کام خوفو کے غلاموں کی فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ تحقیق ایک پرانی تصنیف سے ملی ہے جو کہ وادی جَرَف میں دفن تھی۔ اور وادی جرف سے یہ کتاب ملی تھی۔ وادی جرف Red Seaکے ساحل پر موجود ہے۔ یہ تصنیف بنیادی طور پر میریڈ نامی شخص کی ڈائری ہے جو کہ اہرام بنانے والے انجینئروں اور تعمیر کاروں کا نگران تھا جو کہ فرعون خوفو کی حکومت کی ستائیسویں سال میں لکھی گئی تھی۔ اس ڈائری میں اہرامِ مصر کو بنانے میں جو فنون بروئے کار لائے گئے تھے اس سے دنیا ناواقف تھی اس ڈائری کے ذریعے خوفو کے اہرام کی پر شکوہ قبر سے پردہ اٹھتا ہے ۔ خوفو کے اہرام میں چُنے گئے پتھروں کو مزدوروں نے لکڑی کی کشتیوں پر لاد کر جیزہ لایا تھا۔ اور اُس دَور کے انجینئروں نے اس مقصد کے لئے دریائے نیل سے نہریں نکالیں تھی جو کہ اس جگہ سے ہو کر گزرتی تھیں جس جگہ سے پتھروں کو کشتیوں پر لادنا تھا اور نہریں اہرامِ مصر تک آتی تھیں لیکن اس میں بہت بڑی مشکل یہ پیش آئی تھی کہ اتنے بھاریں پتھروں سے بھری کشتیوں کو پانی میں کیسے چلایا جائے ۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالاکہ ان نہروں کو دریائے نیل سے اسطر ح نکالاگیا کہ نہروں پر پانے کا بہائو نیچے کی جانب رکھا گیا تا کہ ان میں پانی کا بہائو فطری طور پر نیچے کی جانب بہتا رہے تا کہ وہ کشتیاں بغیر انسانی طاقت یا معمولی طاقت سے جیزہ کی جانب بہتی رہیں۔ جب وہ کشیتاں مطلوبہ جگہ پر پہنچتیں تو پتھروں کو وہاں اتار لیا جاتا۔ اس نہری نظام کے آثار 150سال قبل سائنسدانوں کو ملیں۔
مجھے یاد ہے جب میں ازھر میں قیام کے دوران 1984ء میں ازہر کے دیگر طلباء ساتھیوں کیسا تھ ابوالہول اور اہرامات دیکھنے گیا تو گائیڈ نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں پہلے دریائے نیل اہرامات کے قریب بہتا تھا۔ مُرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے بہائو کی جگہ تبدیل ہو کر دُور چلی گئی۔ جدید دور کے سائنسدانوں اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے کشتیوں کے لنگر انداز ہونے کے مواقع بھی ڈھنونڈ نکالنے میں کامباب ہوئے اور یہ پتہ بھی لگا یا گیا کہ ان کشتیوں کی تعداد7تھی جو یوں ٹنوں وزنی پہاڑوں کے بلاک اہرام کی جگہ پہنچائی جاتی رہیں۔ اب ایک مرحلہ ان بھاری بھرکم مخروطی اور مثلث تراشیدہ پتھروں کو دیوارِ اہرامات پر چُننے کا تھا تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جہاں جتنی بلندی اہرامات کی دیواریں اونچی ہوتی گئیں اس لیول تک زمین کی سطح پرمٹی بھری جاتی رہی اور ان پر پتھروں کو لکڑیوں کے تختے اور بانس پر پتھروں کو دیوار کے لیول تک کھینچے جاتے جب وہ پتھر اس دیوار تک پہنچ جاتے تو مطلوبہ دیوار مکمل ہو جاتی تو مٹی کو وہاں سے ہٹایا جاتا۔ بیرون مصر دنیا خوفو ، خفرع اور منکورع کے مقابر یعنی اہرامات سے تو واقف ہے تا ہم بیشتر دنیا اُن اہرامات سے واقف نہیں جو وادی الملوک میں موجود ہیں۔ ان کی تفا صیل کچھ یوں ہیںکہ مصر کا آخری علاقہ جو سوڈانی سرحد کے قریب واقع ہے جس کا نام اَسوان ہے ۔ اَسوان سے مصر کا ڈیم نظر آتا ہے جہاں سے مصر کے ایک حصے کو بجلی مہیا کی گئی ہے۔ ( جاری ہے)
اہراماتِ مصر ، فراعنہ اور قرآن……2
Nov 21, 2020