پہلے کرونا نے ادبی محفلوں اور صوبے کے انتظامی مرکز لاہور کو قصہ ماضی بنائے رکھا اور پاکستان رائیٹرز گلڈ پنجاب کے انتظامی اجلاس بھی آن لائن اس لئے کرنا پڑے کہ مجلس عاملہ کے بعض ارکان کو دوسرے شہروں سے آنا ہوتا ہے اور ابا سموگ کا بھوت بوتل سے باہر آ گیا ہے اور صورت حال اتنی گھمبیر ہو گئی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ پر قابو پانے کیلئے حکومت پنجاب کو صوبے کے اداروں میں ملازمین کی 50 فیصد حاضری کم کرنے اور لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد میں سموگ کے بارے میں رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے کوڑا کرکٹ اٹھائے جانے بارے بھی لاہور کی صفائی سے متعلق مکمل رپورٹ بھی طلب کرلی ہے ۔ عدالت نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیدی۔ معروف ایکٹی وسٹ شیراز ذکاء ایڈووکیٹ کی درخواست پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپکی رپورٹ میں فقط دو جگہوں کا ذکر کیا ہے ۔ وکیل لاہور ایل ڈبلیو ایم سی نے کہا باقی جگہوں کی مانیٹرنگ جاری ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کی جارہی ہے ۔ جوڈیشل پینل کے سربراہ اظہر صدیق نے جو آج کل اپنے گونجدار وی لاگ کی وجہ سے بھی مشہور ہیں کہا کہ والڈ سٹی اتھارٹی صفائی کا ملبہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ پر ڈال رہی ہے ، استدعا ہے کہ عدالت اس معاملہ کا بھی تعین کردے۔ شیراز ذکا ایڈووکیٹ کی درخواست پر عدالت نے سموگ کے معاملے پر ناقص کارکردگی پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آج یہ حال ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ عدالت نے سموگ کے تدارک کیلئے ڈی جی پی ڈی ایم اے اور کمشنر لاہور پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تاکہ سموگ پر قابو پانے کیلئے لائحہ عمل بنا سکیں۔ سموگ پر قابو نہ پانے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی۔ سید علی ذاکر نے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کی وساطت سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، ماحولیاتی ایجنسی سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ۔ درخواست میں کہا گیا عدالت سموگ اور فضائی آلودگی کنٹرول نہ کرنے والے ذمے داران کیخلاف کارروائی کا حکم دے ۔ اسی پس منظر میں سموگ سے متاثرہ علاقوں میں 2 ہفتوں کیلئے لاک ڈاون لگانے کیلئے بھی لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا گیا اور ایڈووکیٹ افتاب ورک نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ لاہور اس وقت آلودگی کی لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا اس لئے اس مسئلہ پر قابو پانے کیلئے کرونا کی طرح لاک ڈائون لگایا جائے۔ ان حالات میں رائٹرز گلڈ کی انتظامیہ نے پہلی فرصت میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا ۔ مسائل تو بہت تھے لیکن فوری طور پر بنک کے اپنے کلائنٹس کے ساتھ سخت رویے اوراس سے گلڈ جیسے پرانے کلائنٹ کو درپیش مشکلات کے حل عبوری جنرل سیکرٹری کیلئے بلوچستان کے دوستوں کی خواہش پر پنجاب کی طرف سے اتفاق رائے اورر سندھ کی نئی انتظامی کشمکش کو زیر بحث لایا گیا اس باراجلاس کی صدارت سینئر بیوروکریٹ دانشور وحید رضا بھٹی نے کی جبکہ گلڈ ٹرسٹ کی چیئرپرسن فرح جاوید۔ نوائے وقت کے کالم نگار روزنامہ فرنٹ کے ایڈیٹرگلڈ کے پنجاب کے سیکرٹری بیدار سرمدی۔ ماہنامہ تحریریں کی ایڈیٹر خزانچی زاہدہ صدیقی۔ ممتاز مصور اقبالیات اسلم کمال اسلامیہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر امجد علی شاکر نواے وقت کے سیزئر ایڈیٹر ایڈیٹوریل سعید آسی سینٹر پروفیسر اخلاق حیدر آبادی نے شرکت کی سموگ کے مسائل سبھی کے لب پر تھے مگر فیصلہ ہوا کہ گلڈ کی ادبی سرگرمیوں کو معمول کے مطابق جاری کیا جائے اور بنکنگ کے مسائل کا متبادل حل تلاش کیا جائے ۔ اس ضمن میں سعید آسی کیطرف سے یہ تجویزبھی پیش ہوئی کہ متعلقہ بنک کیخلاف ہائیکورٹ اور بنکنگ کورٹ سے بھی رجوع کیاجائے تاکہ گلڈ کے مختلف صوبوں کے مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو بھی ریلیف کی صورت نکل سکے عبوری سیکرٹری کیلئے صوبہ بلوچستان کی خواہش پر جزوی اختلاف کے بعد اکثریت نے مجموعی صورتحال کے پیش نظر حمائت کا اظہار کیا سندھ کی صوبائی صورتحال کے بارے میں اجلاس کو بتایا گیا کہ ممتاز ادیب سیپ کے ایڈیٹر نسیم درانی نے خبر دی ہے کہ وہ محترم احمد عمر شریف سے مل کر اپنی اعلان کردہ نئی صوبائی باڈی کو تسلیم کروائیں گے اورریکارڈ حاصل کر کے اسکی ایک کاپی لاہور کے گلڈ آفس بھی بھجوائیں گے ۔ گلڈ کے سینئر رکن اور ممتاز مصور اسلم کمال کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور کو بچانے کی سنجیدہ کوشش اس وقت نظر آئیگی جب شہر میں دھواں پھیلاتی ویگنوں اور دوسری ٹرانسپورٹ کے خلاف کاروائی نظر آئیگی جب شہر کے مرکز کے ساتھ ساتھ اسکے پہلوئوں میں موجود بستیوں میں تجاوزات ختم ہوں گی جو ٹریفک کوروکدیتی ہیں اور یوں گاڑیاں کھڑی کھڑی یا سست رفتاری کے باعث فضاکو آلودہ کئے دیتی ہیں ۔ اجلاس میں اخلاق حیدر آبادی اور پرفسر امجد علی شاکر کی نئی کتابوںکی آمد کی نوید ملی ۔سعیدآسی کی تازہ کتاب اشرافیہ اورعوام اور کوبھی خوش آمدید کہا گیا ۔
لاہورمیں سموگ، عدالت عالیہ اور رائٹرز گلڈ
Nov 21, 2021