ملتان (نیوز رپورٹر) اولیا کی دھرتی پر دو روزہ‘ چوتھا ملتان لٹریری فیسٹیول‘ گزشتہ شب اختتام پذیر ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح امسال بھی اس فیسٹیول کی عوام نے بھرپور پذیرائی کی۔ فیسٹول میں مخصوص موضوعات پر مباحثہ، انٹرویوز، بک ریڈنگ کے سیشن منعقد ہوئے۔جبکہ سیاسی بحث ومباحثے کے ساتھ ساتھ میوزک کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں ریڈیو، ٹی وی اورآنے والا وقت کے حوالے سے موضوع زیر بحث لایا گیا۔ جس میں میزبان فرنود عالم نے روایتی اور جدیدصحافت پرتقابلی جائزہ لیا۔ اس موقع پر وسعت اللہ خان نے بتایا کہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں معیاری مواد کی شدید قلت ہے کیونکہ سینسرشپ نے تخلیقی صحافت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور معاشرے سے مزاحمت کا خاتمہ بھی اسکی ایک وجہ ہے ہمیں اگر نیچے بیٹھنے کو کہا گیا تو ہم لیٹ گئے اور آج تک صحافی اپنے پاؤں پرکھڑے نہیں ہوسکے ۔ حنا شفقت نے کہا کہ 2003 کے بعد ریڈیو کی جگہ معاشرے میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے لے لی۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے باعث ایف ایم کی جگہ پوڈ کاسٹ لے رہاہے اس موقع پر میڈیا و فلم ٹرینر امیرہ جویریہ نے کہا کہ پاکستان میں آج تک فلم کوآرٹ کادرجہ نہیں مل سکا۔ ٹی وی چینلز فلم انڈسڑی کو سپورٹ کریں جبکہ مختلف موضوعات پرفلمیں بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ ہم نے ٹرانسجینڈر کو قومی دھارے میں لانے کیلئے پہل اٹرانسجینڈر سکول بنایا تاکہ ٹرانسجینڈر تعلیم حاصل کرکے معاشرے کا موثر حصہ بن سکیں۔ پاکستان کی پہلی ایم فل اردو ٹرانسجینڈ رفیض اللہ عرف فیضی نے بتایا کہ بچپن میں ہی گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ لیکن تعلیم کومشکلات کے باوجود جاری رکھا۔ اس موقع پر تنویر جہاں‘ ڈاکٹرعنبرین صلاح الدین ‘ڈاکٹرعنبرین صلاح الدین‘ ڈاکٹر اختر علی سید‘ ڈاکٹرآشولال نے بھی خطاب کیا۔ ملتان لٹریری فیسٹول میں کئی بڑے پبلشرز نے اسٹال بھی لگائے۔اختتام میں ملتان لٹریری فیسٹیول میں میوزیکل پروگرام کاانعقادکیاگیا۔ موسیقی کا رنگ معروف گلوکارہ گلشن جہاں نے جمایا اور شاندار پرفارم کیا۔