لاہور(کامرس رپورٹر )فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں یونائیٹڈ بزنس گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً دو دہائیوں سے سردیوں میں گیس کی قلت معمول بن چکی ہے، اسے وسیع تر قومی مفاد میں جلد از جلد اس انداز میں حل کیا جانا چاہئے جس میں صنعتی شعبوں بالخصوص برآمدات پر مبنی صنعتوں کو اولین ترجیح حاصل ہو۔ اتوار کو یہاں مومن علی کی قیادت میں صنعتکاروں اور تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے یو بی جی کے چیئرمین شہزاد علی ملک( ستارہ امتیاز) نے کہا کہ مقامی گیس کے ذخائر ختم ہونے اور گیس کی بڑھتی طلب کی وجہ سے حالیہ برسوں میں یہ قلت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھریلو صارفین کو ایندھن کے رعایتی ٹیرف کی وجہ سے ڈسٹری بیوٹرز کو سالانہ 75 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2015 کے بعد سے قطر سے گیس کی درآمدکے باوجود سردیوں کے موسم میں سپلائی کے فرق کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ اس سال روس کی طرف سے سپلائی کی معطلی کے بعد بڑھتی ہوئی یورپی مانگ کی وجہ سے بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس کے نئے ذخائر دریافت نہ ہونے تک گیس کی قلت برقرار رہنے کا امکان ہے، تب تک اپنی ضروریات کو جزوی طور پر پورا کرنے کے لیے ہمیں مہنگی گیس پر انحصار کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو گھریلو صارفین کو مستقل طور پر ایل پی جی پر منتقل کرنے کے لیے پالیسی بنانا ہو گی۔ حکومت دستیاب گیس کو بجلی کی پیداوار اور براہ راست صنعتی استعمال کے لیے استعمال کرے جہاں اس کی افادیت گھر میں کھانا پکانے اور گھروں میں ہیٹر کے استعمال سے کہیں زیادہ ہے۔ وفد کے رہنما مومن علی نے کہا کہ ایسا کرنے سے گیس کی قیمت کی مکمل وصولی اور ٹیکس دہندگان پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ گیس کی سبسڈی زیادہ تر امیر گھرانوں کی جیب میں چلی جاتی ہے جب کہ کمزور طبقے کا انحصار مہنگی ایل پی جی یا دیگر ایندھن پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر سوئی سدرن اور سوئی ناردرنکے پائپ لائن نیٹ ورکس میں 18 فیصد بھاری لائن لاسز اور بڑی مقدار میں چوری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ گھریلو صارفین کو ایل پی جی پر منتقل کرنے سے ان لائن لاسز اور چوری کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس شعبہ میں ریفارمز لانے تک ملک میں گیس کے مسائل کئی گنا بڑھتے رہیں گے جس سے اقتصادی ترقی بری طرح سے متاثر ہوتی رہے گی۔