بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف کشن گنگا اور ریٹلی ہائیڈرو منصوبے پر پاکستانی اعتراضات کو سماعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے قانونی اور آبی ماہرین پر مشتمل وفد واشنگٹن روانہ ہو گا جس میں سیکرٹری آبی وسائل، انڈس واٹر کمشنر اور ماہرین شامل ہوں گے۔ عالمی بینک دونوں منصوبوں کے ڈیزائن آج (21 نومبر کو) ثالثی عدالت کے حوالے کرے گا ۔ ڈیزائن اور اعتراضات کی دستاویزات حوالگی کے موقع پر بھارتی وفد بھی موجود ہو گا۔ پاکستان نے متنازع ڈیزائن پر 2016ء میں عالمی بینک سے رجوع کیا تھا اور عالمی بنک نے 5 سال کے بعد اکتوبر 2021ء کو ثالثی عدالت تشکیل دی۔ بھارت نے معاملہ مل جل کر حل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن پاکستا ن نے بھارت کے ماضی کے رویوں کی بنیاد پر یہ تجویز مسترد کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا ارتکاب کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ سندھ طاس معاہدے کی روسے دو دریائوں چناب اور جہلم پر پاکستان کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کوئی نیاڈیم نہیں بنا سکتا ۔ اسی طرح معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کی صورت میں عالمی بینک ثالثی کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے لیکن بھارت نے اس معاہدے کو کبھی بھی درخورِ اعتنا نہیں جانا اور اب تک کتنے ہی ڈیم ان دریائوں پر بنا چکا ہے۔ دوسری طرف ہماری حکومتوں کی بھی یہ کوتاہی رہی ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں متنازعہ ڈیموں کے خلاف کبھی بھی وقت پر آواز نہیں اٹھائی۔ بھارتی حکومت کی طرف سے جب بھی متنازعہ ڈیم بنانے کا آغاز کیا گیا ہم نے روایتی بے پروائی برتتے ہوئے ہمیشہ اس وقت اپنے اعتراضات اٹھائے جب بھارت میں منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ہو گیا۔ اب بھی سفارتی سطح پر ہماری کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ کشن گنگا اور ریٹلی ہائیڈرو آبی منصوبوں پر جو اعتراضات 2016ء میں اٹھائے گئے تھے، پانچ سال کے بعد عالمی بینک نے ان پر ثالثی عدالت تشکیل دی اور یوں اس کیس کی سماعت کی جانب اس وقت قدم اٹھایا گیا جب ہماری درخواست کو بھی 6 سال ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں اس عرصہ کے دوران بھارت نے ان منصوبوں پر کوئی کام کیا یا ثالثی کے انتظار میں کام روکے رکھا۔ پاکستان کی حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کیس پوری تیاری کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے ۔ قومی مفادات کے حصول میں کسی بھی قسم کی کوتاہی، غفلت یا عدم دلچسپی ناقابلِ معافی جرم ہے۔