پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے اسحاق ڈار کو بیرونِ ملک سے لا کر اس لیے وفاقی وزیر خزانہ بنایا ہے تاکہ وہ معیشت کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں اور اس کے ساتھ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بھی بچائیں۔ اپریل کے مہینے میں اس وقت کی حزبِ اختلاف نے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج کر نئی حکومت قائم کی۔ حکومت کا قیام جن وجوہ کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا ان میں سرِ فہرست یہ بات تھی کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے تقریباً پونے چار سال کے عرصے میں مہنگائی کو بے قابو چھوڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوا۔ نون لیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت تو قائم کرلی لیکن یہ حکمران اتحاد وہ عوامی اور ملکی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا جن کو جواز بنا کر پچھلی حکومت گرائی گئی تھی۔
پی ٹی آئی نے اگست 2018ء سے لے کر اپریل 2022ء تک یکے بعد دیگرے چار وفاقی وزرائے خزانہ لگائے لیکن اقتصادی مسائل کا جن ان کے قابو میں نہ آسکا۔ اپریل سے اب تک موجودہ حکمران اتحاد بھی دو وزرائے خزانہ لگا چکا ہے لیکن مسائل تاحال جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات تو ضرور کررہے ہیں لیکن ان اقدامات کے نتائج کب تک برآمد ہوں گے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ ہر وزیر کی طرح اسحاق ڈار بھی بہت سے دعوے کررہے ہیں اور قوم کو بار بار یہ بتارہے ہیں کہ وہ مسائل پر جلد قابو پا لیں گے۔ ابھی تک ان کی ساری باتیں اور دعوے محض قصے کہانیاں ہی ہیں کیونکہ جب تک عوام کو حقیقی ریلیف نہیں ملتا تب تک یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے اقدامات واقعی کسی مثبت تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنے کے قابل ہیں۔
اب اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے انھوں نے قوم کو بتایا ہے کہ ملکی معیشت کے حوالے سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان نے ادائیگیوں میں نہ کبھی آج تک ڈیفالٹ کیا اور نہ ہی آئندہ کرے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ملک میں پٹرولیم کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں، کسی قسم کی پریشانی کی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں نہ کی جائیں جن سے پاکستان کو نقصان ہو، افواہیں پھیلا کر ملک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ان شاء اللہ پاکستان سکوک بانڈز کی ادائیگی وقت پر کرے گا۔ پاکستان کے رسک فیکٹر سے متعلق بے بنیاد باتیں نہ پھیلائی جائیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آنے والی ادائیگیوں کے لیے بھی انتظام ہو رہا ہے۔ پاکستان دسمبر کے پہلے ہفتے میں یورو بانڈ کی وقت پر ادائیگی کرے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بارے میں افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اچھے طریقے سے مینج کیا جا رہا ہے۔ معیشت سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ دیے جائیں۔ اللہ کے فضل سے ہر چیز ٹھیک چل رہی ہے۔
ممکن ہے اسحاق ڈار درست کہہ رہے ہوں لیکن وفاقی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار ان کے دعووں کی تائید نہیں کر رہے۔ ادارے کے مطابق، ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 15.23 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اکتوبر کے دوران ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 36 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ ستمبر میں ٹیکسٹائل کا برآمدی حجم ایک ارب 52 کروڑ ڈالر تھا۔ ماہانہ بنیاد پر کاٹن یارن کی برآمدات میں 54 فیصد تک کمی ہوئی۔ اکتوبر میں کاٹن کلاتھ کی برآمدات میں 7.6 فیصد اور نیٹ ویئر میں 14.32 فیصد کمی ہوئی۔ اکتوبر کے دوران بیڈ وئیر کی برآمدات میں 25 فیصد تک کمی ہوئی۔ مالی سال جولائی تا اکتوبر ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی ہوئی۔ جولائی تا اکتوبر ٹیکسٹائل برآمدات میں 1.34 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ رواں مالی سال کے چار ماہ میں کاٹن یارن کی برآمدات میں 27.73 فیصد کمی اور کاٹن کلاتھ کی برآمدات میں 1.27 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اسحاق ڈار قوم کو طفل تسلیاں دے کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگ ان کی ان باتوں سے مطمئن ہو جائیں گے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام کو حکومت کی کسی بھی بات پر صرف اور صرف اس وقت ہی یقین آسکتا ہے جب انھیں واقعی نظر آئے کہ حکمرانوں نے اپنے اللے تللے چھوڑ کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کچھ کرنا شروع کردیا ہے۔ جب حکومت ایک طرف مراعات یافتہ طبقے کو مزید نوازتی جارہی ہو اور دوسری جانب عام آدمی پر بوجھ بڑھتا جارہا ہو تو کسی بھی وزیر مشیر کے دعووں پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ موجودہ حکمران اتحاد اپنی پالیسیوں کے باعث اپنے تابوت میں خود ہی کیل ٹھونکتا جارہا ہے۔ اگر اب بھی عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے مناسب اور فوری اقدامات نہ کیے تو آئندہ انتخابات میں حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔