آج ہم تین واقعات کا جائزہ لیں گے جو گزشتہ چار برسوں میں بظاہر الگ الگ رونما ہوئے لیکن در حقیقت ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ پہلا واقعہ ’’جوائے لینڈ‘‘ نامی فلم ہے۔ کچھ آنکھ مچولی کے بعد وفاقی حکومت نے اس فلم پر عائد پابندی کو ہٹا دیا لیکن آخری خبریں آنے تک پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی ہوئی ہے۔ اس فلم کی کہانی ایک شادی شدہ مرد کے گرد گھومتی ہے جسے فحش تھیٹر کے ایک ’’ ٹرانس جینڈر‘‘ ڈانسر سے محبت ہو جاتی ہے۔ خیر جب ان کا راز کھلتا ہے تو اس مرد کا خاندان اور بیوی سمیت ’’ظالم معاشرہ‘‘ انکی ’’ ٹینڈر محبت‘‘ کا دشمن بن جاتا ہے۔ فلم بنانے والوں اور انکے حواری ’’ مخصوص لبرل مافیا ‘‘ کے مطابق اس فلم میں ٹرانس جینڈرز پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ اس فلم کو ایک دو ایوارڈ مل چکے ہیں اور اب اس فلم کو اکیڈمی اور آسکر ایوارڈ میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھیجنا ہے جہاں ممکنہ طور پر یہ مزید ایوارڈ جیتے گی جو پاکستان میں سینما کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ گویا ہم نے صنعت، تعلیم، صحت اور معاشی میدانوں میں تو ترقی کر لی ہے اب بس یہ مخصوص فلمی ترقی رہ گئی ہے۔ ان لوگوں کو ایوارڈ جیتنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کوئی معیاری فلم بنائیں، معیاری کام کریں، اور اوپن میرٹ پر جتنے مرضی ایوارڈ جیتیں۔ لیکن ان میں اتنی قابلیت ہی نہیں اس لیے انکے پاس ایوارڈ کا ٹھپہ نام کے ساتھ لگوانے کے لیے اس طرح کا گھٹیا ضمیر اور وطن فروشی کا راستہ ہی بچ جاتا ہے۔ ویسے اس فلم کو ایوارڈ دینے والوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس شادی شدہ مرد جو گھر سے باہر منہ ماری اور دھوکہ دہی ( چیٹنگ) کر رہا ہے ( چاہے وہ کسی اور خاتون کے ساتھ ہی ہوتی)، اسکی بیوی کے حقوق کہاں ہیں؟ کیا بیوی سے ہونے والی زیادتی کے بارے میں بننے والی کسی فلم کو بھی ایوارڈ دیے جائیں گے؟ یاد رہے کہ اس فلم کو کینز میں ’’ کوئیر پام ‘‘ ایوارڈ دیا گیا ہے جو ہم جنس پرستی کے پرچار کے لیے بننے والی فلموں کے لیے مخصوص ہے۔
دوسرا واقعہ 2018 ء میں شروع ہوتا ہوا اس برس مکمل ہوا۔ وہ یہ کہ پاکستان میں ’’ ٹرانس جینڈر ز‘‘ کے حقوق کی حفاظت کا قانون پاس ہو گیا۔ مجھ سمیت کسی پاکستانی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کے تحت نامکمل مرد یا نا مکمل عورت بنایا ہے انہیں وہ تمام معاشرتی حقوق ملنے چاہئیں جو کسی بھی پاکستانی کا حق ہیں۔ لیکن اس قانون کے ذریعے سب سے بڑا ڈاکہ ہی اس تیسری صنف کے حقوق پر ڈالا گیا ہے کیونکہ یہ لوگ دراصل ’’ ٹرانس جینڈر ‘‘ نہیں بلکہ ان کے لیے دنیا کی ہر لغت میں ’’ انٹر سیکس ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ٹرانس جینڈر وہ مرد یا عورت ہے جو در اصل حیاتیاتی اور جسمانی طور پر مکمل عورت یا مرد ہو لیکن وہ ذہنی طور پر اپنی اصل جنس کے مخالف دوسری جنس بننا چاہتا یا چاہتی ہو۔ اس قانون کے سیکشن 3 کی شق ایک تا چار کے مطابق ، کوئی بھی شخص قطع نظر اس بات کے کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت مرد تھا یا عورت، اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو چاہے مرد قرار دے دے چاہے عورت۔ وہ اپنے آپ کو جس بھی جنس کا سمجھے یا قرار دے ( یہاں’’ سیلف پرسیوڈ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے)، اسے بغیر کسی ڈاکٹری معائنہ یا سرٹیفکیٹ کے درست مانا جائے گا اور نادرا اسے اسکے نئے نام اور جنس کے مطابق شناختی کارڈ جاری کرے گی۔ بلا شبہ ابھی تک تو اس قانون کے تحت کسی کا شناختی کارڈ جاری نہیں ہوا، لیکن جب قانون بن گیا ہے تو ابھی یا کچھ عرصہ بعد اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا۔ کیا یہ کسی اچنبھے کی بات ہو گی اگر کوئی مرد اپنے آپ کو عورت قرار دے کر نئے نام اور نئی جنس کا شناختی کارڈ بنوائے اور کسی اور مرد سے شادی کر لے؟ یا پھرکوئی عورت اپنے آپ کو ( سیلف پرسیوڈ) مرد قرار دے اور وراثت میں مردوں کے برابر حصے کا دعویٰ کر دے کیونکہ اسی قانون کے سیکشن سات کی شق ایک تا تین میں واضح لکھا ہے کہ وراثت میں حصہ اسی حساب سے دیا جائے گا جو اٹھارہ برس کی عمر کے بعد کوئی بھی ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو سمجھے گا اور قرار دے گا۔ تیسرا واقعہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم مسٹر نیتن یاہو کا ایک تقریب سے خطاب ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو انہوں نے سی آئی اے کے اعلیٰ افسران سے کہا تھا کہ ایران کو تباہ کرنے کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایران میں سینما، میڈیا، انٹر نیٹ اور خاص طور پر کیبل اور ڈش انٹینا موجود ہے۔ بس اس کے ذریعے مخصوص قسم کی مغربی فلمیں، ڈرامے ایران کی نئی نسل کو دکھائیں، میڈیا کو قابو کریں اور آزادیٔ رائے اور آزاد میڈیا کے نام پر انکے معاشرتی نظام کے تانے بانے کمزور کرنے کی دیر ہے، ایران خودبخود ڈھیر ہو جائے گا۔ اب یہ آپ خود سوچ لیں کہ اسرائیل ، یہود و نصاریٰ کے لیے ایران اور پاکستان سمیت کسی بھی ایسی ریاست میں جو اسلام کا نام لیتی ہو کتنا فرق ہو گا؟ یہ سب واقعات جس زنجیر کی کڑیاں ہیں اس زنجیر کا نام ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘ ہے جس کا نشانہ معاشرتی اقدار ، نظریے اور ہتھیار سینما، ٹیلی ویژن، ڈرامے فلمیں، انٹر نیٹ کی مخصوص ویب سائیٹ، خبر رساں ایجنسیاں اور آزادیٔ رائے کے نعرے ہوتے ہیں۔ اسکی تفصیل اور اس میں میڈیا کے کردار کے بارے میں آئندہ کالموں میں زیادہ تفصیل سے بات ہو گی۔ انشاء اللہ !
( جاری ہے)