شانتی نگر ضلع خانیوال کا ایک ماڈل ویلج

Nov 21, 2023

فیصل سلیم
chfaysul@gmail.com
شانتی نگر ضلع خانیوال کا ایک معروف نواحی علاقہ ہونے کے ساتھ ضلع خانیوال کی سب بڑی مسیحی آبادی بھی ہے۔ یہاں کی مسکن اقلیتی آبادی آںے والے انتخابات میں انتخابی عمل سے آگاہی اور غیر منصفانہ حلقہ بندی کے باعث درپیش مسائل کے حل کی خواہاں ہے۔ 
دسمبر 1916ءمیں آباد کیے جانے والے اس گاو¿ں کا نام شانتی نگر یورپین نژاد و سالویشن آرمی کی بریگیڈیئر بینسٹر عرف شانتی بائی کی سالویشن آرمی میں ممتاز کارگردگی اور خدمات کے اعتراف میں رکھا گیا۔ یہ گاو¿ں 26 سو ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس میں سے 25 سو ایکڑ زرعی اور سو ایکڑ رہائشی رقبہ شامل ہے اور گاو¿ں کی مجموعی آبادی 22 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ شانتی نگر گاو¿ں میں 1313 گھرانے آباد ہیں اور اکثریتی آبادی کیتھولک مسیحی برادری سے ہے۔
الیکشن کمیشن خانیوال کے مطابق شانتی نگر (72 دس آر) کے کل ووٹرز کی تعداد 7441 ہے جو کہ آٹھ شماریاتی بلاک کوڈز پر مشتمل ہے۔ جن میں مرد ووٹر کی تعداد 3882 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3659 ہے۔سابق یونین کونسل چیئرمین و ممبر ضلع کونسل جیکب وزیر کے مطابق 2018 کے قومی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں 1 ہزار کے لگ بھگ ووٹ کراچی اور لاہور منتقل کر دیا گیا، جبکہ ووٹ منتقلی کے متاثرہ لوگوں کی اکثریت مزدور پیشہ ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اس مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دی، جبکہ نئے رجسٹرڈ ووٹرز شامل ہونے کے بعد مقامی ووٹرز کی تعداد 85 سو پر پہنچ جائے گی۔ 
شانتی نگر یونین کونسل نمبر 103 کا حصہ ہے جو شانتی نگر (72 دس آر)، 71 دس آر، 77 دس آر، 76 دس آر اور 86/85 دس آر پر مشتمل ہے۔
جیکب وزیر بتاتے ہیں کہ شانتی نگر کے لئے سب سے بڑا مسئلہ گزشتہ قومی انتخابات میں پیش آیا، جب سابق صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ حاجی عرفان خان ڈاہا کی درخواست پر شانتی نگر کو یونین کونسل 92 دس آر سے الگ کرتے ہوئے یونین کونسل نمبر 103 کا حصہ بنا دیا گیا۔
یونین کونسل تبدیل ہونے کے بعد انکا گاو¿ں خانیوال کے شہری حلقے سے الگ ہوگیا اور پی پی 206 خانیوال کی بجائے تحصیل جہانیاں کے حلقے پی پی 209 اور قومی حلقے این اے 151 سے 153 میں شامل کر دیا گیا۔ ضلعے کے مرکزی حلقے سے الگ ہونے کے باعث وہ متعدد مسائل کا شکار ہوئے جن کا تاحال کوئی حل نہیں ہوسکا۔
جیکب وزیر کے مطابق شانتی نگر میں 74 سو سے زائد ووٹرز میں سے تین تہائی ووٹر ہراج برادران کے حامی تھے اور 2018 کے انتخابات میں شانتی نگر کو موجودہ حلقہ نمبر این اے 145 (این اے 151) سے الگ کرنے کے باعث قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے امیدوار احمد یار ہراج پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار محمد خان ڈاہا سے 1678 ووٹ سے ہار گئے تھے۔ 
اس تبدیلی سے قبل شانتی نگر یونین کونسل 92 دس آر کا حصہ تھا جس میں شانتی نگر، 92 دس آر، 93 دس آر، 167 دس آر باٹیاں والا شامل تھے اور یہ یونین کونسل خانیوال کے شہری حلقے پی پی 206 کا حصہ تھی۔ 
حلقہ بندی کی غیر منصفانہ تقسیم کو لیکر انہوں نے ملتان پریس کلب کے سامنے احتجاج بھی کیا لیکن الیکشن کمیشن نے انکی درخواست کو رد کردیا۔ یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہراج برادران نے بھی شانتی نگر کو اپنے حلقے میں شامل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی۔
الیکشن کمیشن کا مو¿قف یہ ہے کہ جیکب وزیر کی درخواست پر علاقے کا وزٹ کیا گیا، حلقہ بندی کا یہ بنیادی اصول ہے کہ یونین کونسل میں شامل علاقوں میں آنے جانے کا رستہ دستیاب ہو، جو کہ وزٹ کے دوران موجود پایا گیا، اس تبدیلی کو حلقے کے ووٹوں کی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا اس لئے اس درخواست پر مزید تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 
الیکشن کمیشن کی فراہم کردہ ووٹرز کی تعداد سے اختلاف کرتے ہوئے جیکب وزیر کا کہنا ہے کہ انہیں الیکشن کمیشن نے شانتی نگر کی جو ووٹر لسٹ 2018 کے انتخابات میں فراہم کی تھی اسکے مطابق انکے ووٹوں کی تعداد 74 سو سے زائد تھی تھی۔نئی ووٹرلسٹیں آنے پر انکے علاقے کے ووٹ لگ بھگ آٹھ سو سے ایک ہزار تک مزید بڑھ جائیں گے۔
شانتی نگر کے ووٹرز کا ماننا ہے کہ 2008 سے 2013 کے دوران صرف ہراج برادران نے 2008 کے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شانتی نگر میں ترقیاتی کام کروائے، 2013 میں نئی حکومت نے اس حلقے کو اگلے پانچ سال مسلسل نظرانداز کئے رکھا ، جبکہ 2018 میں حلقے کو خانیوال کے شہری حلقے سے الگ کرتے ہوئے تحصیل جہانیاں کے حلقے پی پی 209 اور موجودہ حلقہ این اے 147 (سابق حلقہ این اے 153) کا حصہ بنا دیا گیا۔ 2018 میں یہاں کے ووٹرز نے پی پی 209 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالرزاق نیازی کا ساتھ دیا تو وہ پھی ہار گئے۔ 
این اے 147 سے کامیاب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے امیدوار افتخار نذیر کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں انکے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ہی نہیں ملی جبکہ شہباز شریف کے دور حکومت میں انہوں نے شانتی نگر کے لئے سولنگ و سیوریج کا ایک منصوبہ منظور کروایا تھا جس کا ٹینڈر 8 نومبر کو ہوچکا ہے، جبکہ شانتی نگر کے علاقے میں دو جگہوں پر بجلی کی فراہمی کے دو منصوبہ جات کا ٹینڈر 11 نومبر کو پاس ہوگیا ہے۔ 
سابق مشیر برائے وزیر اعلٰی پنجاب ایاز خان نیازی کے مطابق وہ شانتی نگر کے لئے ساڑھے تین کروڑ روپے کی سڑکوں کی سکیمز اور صوبائی وزیراقلیتی امور مہندر پال سنگھ ایک کروڑ روپے مالیت کی سیوریج سکیم لائے تھے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے باعث پایہ تکیمل کو نہیں پہنچ سکیں۔
سابق یونین کونسل چیئرمین جیکب وزیر کا کہنا ہے ملکی سطح پر اقلیت کا سب سے بڑا مسئلہ انکی آبادی کے اصل اعداد و شمار کا مکمل نہ کرنا ہے۔ جس کا براہ راست اثر ان کے ووٹوں کی تعداد پر پڑتا ہے۔انکا کہنا ہے کہ اس بات کا ادراک انہیں جنرل الیکشنز 2018 میں ہوا جب انہیں پتہ چلا ہے کہ شانتی نگر کی آبادی 7 ہزار اور ووٹ 74 سو ہیں۔ رواں سال مارچ میں ہونے والے ڈیجیٹیل مردم شماری میں ان کے مقامی رضاکار سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ اپنے تئیں آبادی کا شمار کرتے رہے ہیں اور رضاکارانہ طور پر اکٹھے گئے اعداد و شمار کے مطابق شانتی نگر کی کل آبادی 22 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ ووٹرز کی تعداد 83 سو سے زائد ہے۔ جبکہ 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پبلک ہونے پر مسیحی برادری نے اس پر خاصا احتجاج بھی کیا تھا۔ 
شانتی نگر کی مقامی رہائشی ارم پریم کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ قومی انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے گئیں تو ووٹر لسٹ میں انکے نام پر لائن لگائی جاچکی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ ووٹ ڈال چکی ہیں۔ بطور پڑھی لکھی خاتون انہوں نے بااعتماد طریقے سے مقامی پولنگ ایجنٹس کی مدد سے اس مدعے پر احتجاج کیا تو پولنگ سٹاف نے انکا ووٹ کاسٹ کروایا۔ اس عمل سے انہیں اندازہ ہوا کہ انتخابی عمل میں دھاندلی ہوتی ہے۔ جس کے حوالے سے شانتی نگر میں آج تک سیاسی و سرکاری سطح پر کوئی تربیتی پروگرام منعقد نہیں کروایا گیا۔
الیکشن کمیشن خانیوال کے الیکشن آفیسر عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ٹینڈر ووٹ اور ووٹ صحیح ڈالنے کے عمل کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جبکہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی معلوماتی مواد موجود ہے۔
اس حوالے سے مقامی سیاسی و سماجی کارکن بسم اللہ ارم کا کہنا ہے کہ اقلیتی آبادیوں میں بھی انتخابی عمل اور اس کی بے ضابطگیوں پر ووٹرز کو تربیت دینے کے حوالے سے سماجی تنظیموں کو شانتی نگر میں ایسے پروگرام منعقد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ سابق جنرل کونسلر نذیر جیمس کا کہنا ہے کہ شانتی نگر ضلع خانیوال کا ایک ماڈل ویلج ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسکے قریب ترین بنیادی مرکز صحت 88 دس آر یہاں سے دس کلومیٹر، جبکہ ڈی ایچ کیو خانیوال 20 کلومیٹر دور ہے جس کے باعث لوگوں کو علاج معالجے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ گاو¿ں میں بنیادی مرکز صحت کے قیام کے علاوہ سرکاری پانی اور فلٹریشن پلانٹ کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس مثالی گاو¿ں کو اگر یہ سہولیات بھی میسر ہو جائیں تو یہ دور حاضر میں بھی یقینی طور پر ایک مثالی گاو¿ں ہے۔
قائد کے نظریے اور آئین پاکستان کے مطابق یہ اقلیتوں کا بنیادی حق ہے کہ انہیں سیاسی شعور فراہم کیا جائے اور انکی فلاح و بہبود کے لئے ہرممکن سہولیات فراہم کی جانی چاہئے۔ پھر چاہے وہ صحت و تعلیم کی سہولیات ہوں یا انتخابی عمل سے متعلقہ آسانیاں۔ تاکہ وہ بطور پاکستانی اپنے حقوق سے مستفید ہوسکیں۔

مزیدخبریں