پاکستان میں شفاف انتخابات کا امریکی ارکانِ کانگرس کا بے معنی تقاضہ

امریکی ارکانِ کانگرس کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ شفاف انتخابات تک پاکستان کی امداد روک دی جائے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق کانگرس کے گیارہ ارکان نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو لکھے گئے خط میں بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے مستقبل میں امریکی امداد اس وقت تک روکے رکھے جب تک وہاں آئینی نظام بحال نہیں ہوتا اور آزادانہ، منصفانہ انتخابات نہیں ہو جاتے۔ارکانِ کانگرس نے امریکی محکمہ خارجہ سے اس معاملہ میں قانونی تعین کی بھی درخواست کی تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا امریکی امداد نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سہولت فراہم کی ہے۔ خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب تک پاکستان فیصلہ کن طور پر آئینی نظام کی بحالی کی طرف نہیں جاتا جن میں آزادانہ، منصفانہ انتخابات کا انعقاد شامل ہے جس میں تمام جماعتیں آزادانہ طور پر حصہ لینے کے قابل ہوں، اس وقت تک پاکستان کی امداد معطل رکھی جائے۔ 
امریکی ارکانِ کانگرس کی طرف سے اس اقدام کا آغاز کانگرس کی خاتون رکن الیان عمر کی جانب سے کیا گیا جو امریکی کانگرس میں مسلم کاز کی چیمپئن ہیں جبکہ مراسلہ کے دیگر دستخط کنندگان میں فرینک پیلون جونیئر، جولین کاسترو، سمرلی، ٹیڈ ڈبلیو لیو، ڈیناٹائٹس، لائیڈڈرگیٹ اور کوری بش شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر کانگرس کے ترقی پسند گروپ کے ارکان ہیں جس نے واشنگٹن میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت بھی کی، ان کے بھجوائے خط میں گستاخی¿ مذہب کے حوالے سے پاکستان میں کی گئی حالیہ قانون سازی کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس وجہ سے بھی پاکستان کی امداد روکی جائے۔ خط میں ڈاکٹر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کی حراست کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مخالفین کی سماعتوں اور دیگر قانونی کارروائیوں کے لئے مبصرین بھیجیں۔ اس سلسلہ میں خط میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، خدیجہ شاہ اور ایمان مزاری کے مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں مثبت تبدیلی کی حمائت میں تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ 
اس خط کے مندرجات سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ امریکی ارکان کانگرس کی جانب سے پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات اور منصفانہ ٹرائل کا تقاضہ اصل حقائق کو جانے بغیر محض ایک سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا پر متحرک ٹیم کے پراپیگنڈہ کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کا نہ تو حقیقت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ امریکہ کا مسئلہ ہے۔ دو روز قبل امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی جانب سے پاکستان کی سیاسی قیادتوں سے اچانک رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں آنے والے انتخابات کی شفافیت پر زور دیا گیا اور اب امریکی ارکانِ کانگرس کی جانب سے واشنگٹن انتظامیہ کو لکھے خط کے مندرجات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ایجنڈے کے تحت امریکی لابیز متحرک ہوئی ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ اس جماعت کے لیڈر اور دوسرے عہدے داروں و کارکنوں کی جانب سے 10,9 مئی 2023ءکو پاکستان کے دشمنوں جیسا رویہ اختیار کر کے افواج پاکستان اس کی قیادت، عمارتوں اور تنصیبات پر جنونی انداز میں جو حملے کئے گئے اور پاکستان کے قومی پرچم تک کی بے حرمتی کی گئی جس کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہے اور عمران خان اور دوسرے نامزد ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی ہے تو اس کارروائی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شور شرابا کر کے پاکستان پر ملبہ ڈالا جائے اور اقوام عالم میں اسے انسانی حقوق کا دشمن ٹھہرایا جائے۔ یہ سراسر ایک مخصوص سیاسی ایجنڈہ ہے جو پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو کمزور کرنے کی بادی النظر میں ایک عالمی سازش ہے جسے پاکستان میں موجود ملک کے بدخواہوں کے ذریعے پروان چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
اگرچہ پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے سائفر کیس کی بنیاد پر امریکہ مخالف بیانیہ تراشا گیا اور اس پر سیاست چمکائی گئی جبکہ امریکی سفیر کی میاں نواز شریف سے دو روز قبل کی ملاقات کے حوالے سے بھی پی ٹی آئی ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں اس ملاقات کو سائفر کیس کے ساتھ نتھی کر کے اسے پاکستان کے معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا مگر فی الحقیقت اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کر کے خود امریکہ اور برطانیہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی گئی ہے۔ امریکی ارکان کانگرس کے خط کے بعد جس میں بطور خاص عمران خان، خدیجہ شاہ اور ایمان مزاری کے خلاف مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ امریکی سفیر اور ارکان کانگرس پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر جاری پاکستان مخالف مہم کی بنیاد پر ہی پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ملبہ ڈالنے کے لئے متحرک ہوئے ہیں جبکہ انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ کا شدومد کے ساتھ تقاضہ بھی پی ٹی آئی کی جانب سے ہی کیا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے انتخابی عمل میں شفافیت نہیں اور پی ٹی آئی کے مخالفین کو کھلا انتخابی میدان مل رہا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضہ کر رہے ہیں تاہم ان کے والد ا ور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری نے گزشتہ روز اپنے بیان میں دوٹوک الفاظ میں الیکشن کمشن پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک شفاف انتخابات کی طرف گامزن ہے جن میں حصہ لینے کے لئے پیپلز پارٹی مکمل طور پر تیار ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران ایک دوسرے کی مخالف جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں سخت الفاظ بھی استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیرونی ممالک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی جائے اور اقوام عالم میں پاکستان کی سبکی اور ہزیمتوں کا اہتمام کیا جائے جبکہ لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضہ بھی محض سیاسی مقاصد کے تحت کیا جا رہاہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ اس وقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ یہ بہرصورت -8 فروری 2024ءکو منعقد ہو رہے ہیں جن کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے کا الیکشن کمشن کی جانب سے تواتر سے یقین دلایا جا رہا ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں جبکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے عہد پر کاربند ہیں چنانچہ اس صورتحال میں کسی جماعت کی جانب سے انتخابات کی شفافیت کا سوال اٹھایا جا رہا ہے جس کے لئے امریکہ برطانیہ کی لابیز کو بھی پاکستان کا تشخص خراب کرنے کے لئے متحرک کیا جا رہا ہے تو اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پاکستان کی مخالف لابیز کو ایک سیاسی ایجنڈہ کے تحت پاکستان اور اس کے سسٹم کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ اس کی آڑ میں ان فوجداری مقدمات سے خود کو بچایا جا سکے جو -9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر درج ہوئے ہیں۔ ان مقدمات میں تو بہرصورت قانون اور انصاف کی عملداری ہونی ہے اور جرم ثابت ہونے پر متعلقین نے سزائیں بھگتنی ہیں جو انتخابات میں حصہ لینے کی نااہلیت کی بھی ہو سکتی ہیں اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں ہرگز نہیں آتیں۔ قانون اور ریاست کو بہرصورت اپنا راستہ اختیار کرنا ہے جس میں بیرون ملک سے کسی قسم کی مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ 

ای پیپر دی نیشن