اور اب آنسوﺅں کا دروازہ

غزہ کی جنگ میں حوثی عنصر کا اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے ایک اسرائیلی تاجر کا چھوٹا سمندری جہاز ”گرفتار“ کر لیا۔ یہ کارروائی انہوں نے اپنی بحری کشتیوں اور ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے کی۔ اچھا کیا یا برا، غزہ کی جنگ کا دائرہ پھیل کر بحیرہ احمر تک وسیع ہونے کے بارے میں خدشات اور سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جنوبی بندرگاہ ایلات اسی بحرہ احمر کے شمالی سرے پر واقع خلیج عقبہ میں ہے جہاں اردن، سعودی عرب کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور اس پار مصر ہے۔ حوثیوں کا شمالی یمن اسی بحرہ احمر کے جنوبی سرے پر ہے۔ مزید کچھ آگے جنوبی یمن ہے جو سعودی عرب کا اتحادی ہے اور جس کے کنٹرول میں باب المندب کی گزرگاہ ہے۔ یہ عدن سے کچھ فاصلے پر ہے۔ سوچئے، باب المندب کا کنٹرول حوثیوں کے پاس ہوتا تو کیا صورت ہوتی۔ شمالی یمن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر اسرائیلی جہاز اور کشتی کو اپنے نشانے پر رکھے گا ۔ ہر جہاز تو نہیں لیکن خاصی بڑی تعداد میں اسرائیلی جہاز اس کی زد میں آ سکتے ہیں، باب المندب اگر حوثیوں کے پاس ہوتا تو پھر ”ھر“ کا عموم پوری طرح وارد ہو سکتا تھا کیونکہ یہاں سمندری چوڑائی محض 20 میل ہے اور اس چوڑائی کے درمیان میں بھی ایک جزیرہ ہے۔ جس کے ایک طرف محض 16 میل چوڑا سمندر ہے۔ یعنی پھر تو کوئی جہاز بچ کر جا ہی نہیں سکتا تھا، بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ ساحل کے اس پار جبوتی کی ریاست ہے جو ان تین مسلمان ممالک میں شامل ہے۔ جو فلسطینیوں کے حامی ہیں۔ باقی دو بنگلہ دیش اور جزائر قمر (comoro) ہیں۔ ان تینوں ممالک نے بولیویا اور جنوبی افریقہ میں عالمی فوجداری عدالت میں اسرائیل کیخلاف ”کیس“ دائر کیا ہے۔ اس کیس سے ہونا کیا ہے، کچھ بھی نہیں لیکن کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ 54 مسلمان ممالک میں سے کم سے کم تین ملک فلسطین کے حامی اور اسرائیلی مظالم کیخلاف ہیں۔ باقی مسلمان ممالک کا تو کھاتہ ہی گل ہے۔ 
___________
باب المندب بہرحال حوثیوں کی ضرب سے کچھ ز یادہ دور نہیں۔ لیکن اب سوال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کیا کریں گے؟ ۔ فی الحال تو ان کی کوشش ہو گی کہ جہاز چھڑا لیا جائے یا پھر خاموشی اختیار کی جائے لیکن ایک آدھ جہاز مزید اغوا یا تباہ ہو گیا تو پھر خاموش رہنا مشکل ہو گا۔ پھر کیا اسرائیل خود کارروائی کرے گا یا امریکہ کو بلائے گا کیونکہ پھر ”کیس“یہ نہیں بنایا جائے گا کہ اسرائیل کا جہاز اغوا ہوا ہے بلکہ کہا جائے گا کہ تجارت کی عالمی گزرگاہ خطرے میں ہے۔ 
عالمی گزرگاہ تو وہ ہے ہی، یہ نہر سویز ہی کا تسلسل ہے۔ یورپ، شمالی افریقہ اور امریکہ کے جتنے بھی جہاز مشرقی افریقہ اور ایشیا کا رخ کرتے ہیں انہیں پہلے نہر سویز، پھر باب المندب سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کی بھی اس سارے علاقے سے تجارت باب المندب ہی کے راستے ہوتی ہے، اس میں کوئی رکاوٹ اسے برداشت نہیں ہو گی۔
باب المندب کے اردو معنے ”آنسوﺅں کا دروازہ “ ہے۔ غزہ آہوں کی وادی ہے۔ تو کیا باب المندب سے بھی کسی حادثے کا دھواں اٹھنے والا ہے۔
بظاہر یہ امریکہ اور اسرائیل کا آسان ہدف ہو سکتا ہے کیونکہ شمالی یمن کی بحریہ کوئی خاص طاقت نہیں رکھتی۔ چند جہاز ہوں گے البتہ کشتیاں سینکڑوں ہوں گی اور مزید سینکڑوں ضرورت پڑنے پر آسانی سے بنائی جا سکتی ہیں۔ لیکن آسان ہدف بعض اوقات بڑا مشکل ثابت ہوتا ہے۔اسرائیل کو ڈیڑھ مہینے سے غزہ کی ننّھی منی آبادی پر اتنے بم برسا گیا ہے کہ کیا امریکہ نے عراق پر برسائے ہوں گے لیکن اس ننّھے منّے حریف نے مرتے مرتے بھی اسرائیل کے کس بل نکال دئیے ہیں۔ اسے بہت بڑی معاشی تباہی کا سامنا ہے اور نفرت کی اس عالمی لہر کا بھی جو سونامی بن گئی ہے۔ جو نفرت اس قوم سے جرمنوں کو تھی، اس سے کہیں زیادہ نفرت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کا سرکاری بیان ہے کہ اس جنگ میں اس کے محض ساڑھے تین سو فوجی مارے گئے لیکن اس کے سرکاری افسر کچھ اور بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گیارہ سو سے زیادہ فوجی صرف غزہ کے شمال والے سیکٹر میں مارے گئے اور اسرائیلی میڈیا پرسنز یہ نقصان چار ہزار نفری کا بتاتے ہیں۔ مرکاوا نام کا ناقابل تسخیر ٹینک، جس کی مالیت ایک ارب روپیہ فی ٹینک بتائی گئی ہے، سینکڑوں کی تعداد میں تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی آبادی نفسیاتی مریض بن گئی ہے ابھی حماس کا راکٹ پہنچا نہیں ، صرف سائرن بجا ہے اور محض سا ئرن کی آواز سن کر کیا بچے کیا بوڑھے،کیا عورتیں سب کانپ جاتے ہیں۔ اسرائیل عالمی تنہائی کی وادی تیہ (TAiH) میں بھٹک رہا ہے، کئی ہزار سال بعد __ ایک بار پھر۔ 
________________
ادھر، ہمارے یہاں بھی ایک پارٹی کہ جس پر اسرائیل کی عقیدت وارادت مند ہونے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے، سیاست کی وادی تیہہ میں تنہائی کا سفر کر رہی ہے۔ بچے کھچے لوگ دوسری جماعتوں ، بالخصوص جہانگیر ترین کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی خان صاحب کے یاروفادار، پارٹی کے چوٹی کے ماہرین دشنامیات میں سے ایک علی نواز اعوان ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ترین کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ باقی کتنے رہ گئے؟۔ ایک تو شیرافضل مروت، دوسرے غالباً اعتزاز احسن! 
___________
مسلم لیگ اور نواز شریف پر فیصلہ کن ضرب یہ کہہ کر لگائی جا رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی ہے۔ بلاول بھٹو خاص طور سے بہت ”گرم“ بلکہ گرما گرم ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو زبردستی کا وزیر اعظم بنا رہی ہے، قبول نہیں کریں گے۔ 
اسٹیبلشمنٹ بے چاری کیا کرے؟۔ ایک ہی راستہ ہے ، وہ بلاول کو وزیر اعظم بنا دے، پھر اس تہمت سے بچ جائے گی۔ 
اور مسلم لیگ کیا کرے؟۔ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے درجن بھر دانشور تو یہی تقاضا کر رہے ہیں، بین السطور، کہ خان کی طرح نواز بھی ایک 9 مئی کر کے دکھا دیں، ہم تبھی مانیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نہیں ہیں۔ 
9 مئی کرنا اتنا اچھا اور ضروری ہے تو یہ دانشور خود کیوں آگے بڑھ کر نمونہ عمل پیش نہیں کرتے؟۔ کر ہی ڈالیں، قوم کا بھلا ہو جائے گا، سکرینوں پر چہرے تو تبدیل ہوں گے۔
___________
جماعت اسلامی نے کراچی اور اسلام آباد کے بعد لاہور میں بھی غزہ مارچ کیا۔ تینوں شہروں میں یہ مارچ تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ 
ایک مشکل ان میڈیا پرسنز کیلئے کھڑی ہو گئی ، جو ایک لاڈلی جماعت کے دس ہزاری، پندرہ ہزاری جلسوں کو لاکھوں کے جلسے کہنے کے عادی تھے۔ اب سچ مچ کے لاکھوں کے جلوس نکلے تو حیران ہیں کہ انہیں کیا کہیں؟۔ کروڑوں کے جلوس کا نام دے دیں، آپ کے اپنے پیمانے کے حساب سے یہی درست ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن