بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے ناامیدی

 اللہ کی ربوبیت پر جب ایمان ہو جائے کہ میرا رب اللہ ہے اور پھر اس ایمان پر جم جائے ڈٹ جائے تو اس بشر کو نہ کوئی خوف نہ غم نہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔یقین کامل ہوتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے اذن سے ہورہا ہے۔اس کائنات کو چلانے والی سمیع البصیر ذات ہے۔اللہ میرا ولی ہے دوست ہے ہمراز ہے۔ میرا محافظ ہے مددگار ہے تو پھر فکر کیسی، غم کیسا ؟دنیا میں کسی پاورفل انسان سے دوستی ہو جائے تو اسے کسی سے خوف نہیں ہوتا کجا اللہ دوست ہو جو پوری کائنات کی پاورفل ذات ہے، کائنات کا خالق ہے تو اس بشر کی بے خوفی اور سکون کا عالم کیا ہو گا۔
دنیا و آخرت میں اللہ سے زیادہ پاورفل اور مددگار کوئی ہے ؟ مخلوق سے ڈرنا مرعوب ہوجانا غلام ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ رب کی پاور کا ادراک نہیں ہو سکا؟۔ اللہ کے نبی کا فرمان ہے تمام انسان مل کر بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر جو اللہ نے لکھ دیا ہو۔ پھر ڈر کیسا غلامی کیسی ؟جہاں ہم نے سمجھا کہ غیر اللہ کے پاس کوئی طاقت ہے وہی شرک میں مبتلا ہو گیا۔بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نا امیدی ، مجھے بتا تو سہی اور کا فری کیا ہے۔۔۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ کوئی طاقت نہیں سوائے اللہ کے’’۔۔۔پھر در در کیوں جبیں جھکاتے ہو ، کیوں بندوں کے سامنے گڑگڑاتے ہو بھیک مانگتے ہو ؟ایک اللہ سے مانگو۔ پانی پیاس بجھاتا ہے مگر پیاس بجھانے کی صفت پانی میں نہیں اللہ کے اذن میں ہے۔فرعون لشکر لے کے آجاتا ہے ،آل موسی گھبرا گئی۔ موسیٰ علیہ سلام نے فرمایا ‘‘ میرے ساتھ میرا رب ہے ‘‘۔جبکہ سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور کوئی راہ فرار نہیں۔ ایسے میں توکل اللہ ایمان ہے۔وسائل موجود ہوں تو توکل وسائل پر ہوتا ہے اللہ پر نہیں۔ یقین کامل ہو کہ میرا اللہ مسبب الا اسباب ہے تو اللہ اسباب مہیا کرتا ہے۔پھر اللہ کی مدد آن پہنچتی ہے اور سمندر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔اللہ کوسپر پاور ماننے والا کسی طاقتور انسان کے سامنے نہیں جھک سکتا۔
 قائداعظم نے فرمایا:
’’میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تنظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا‘‘۔۔۔پاکستان کی بنیاد لا الہ الا للہ ہے۔ بنیاد مضبوط تھی اسی لئے تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ پاکستان کی بنیاد کوئی سیاسی و مذہبی جماعت نہیں۔ جب بنیاد اتنی مضبوط ہے تو پاکستان کا قائم رہنا تعجب کی بات نہیں۔قائد اعظم کا اللہ کی ربوبیت پر پختہ ایمان تھا اور اسی ایمان کی طاقت تھی جس نے ایک آزاد مسلم ریاست نصیب فرما دی۔ مگر پاکستان میں پیدا ہونے والی نئی نسلوں نے ریاست خداد داد کو فار گرانٹڈ لینا شروع کر دیا۔ پاور انسانوں کے عہدوں اور دولت کو سمجھا جانے لگا جس نے عقائد اور ایمان کو کمزور بنا دیا اور اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ اللہ کے نام لیوا تو ہیں مگر اللہ پر اندھا ایمان نہیں کرتے اور اس کا ثبوت اعمال ہیں۔ بندوں کو رب سمجھ رکھا ہے۔ بندوں سے ڈرتے ہیں اور بندوں کے خالق کی سپر پاور کا ادراک نہیں۔
ہر دورمیں ہزاروں لوگوں نے حکومت کی ہے۔ کئی لوگوں نے خود کو، اس دنیا کو سب سے بڑا حکمران سمجھا ، خود کو کائنات کا سب سے بڑا سپر پاور سمجھ لیا پھر انہی لوگوں ان کا بدترین انجام بھی دیکھا۔تاریخ میں کئی  نامور حکمرانوں اور بادشاہوں کی طاقت ، دبدبہ اور پھر ان کے بدترین انجام کا تذکرہ ملتاہے مگرتاریخ سے عبرت عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں۔
روئے زمین پر حکومت کرنے والے حکمراں نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نائب ہوتے ہیں ، اصل حکمرانی اور حکومت پروردگار عالم کی ہوتی ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام نبی بھی تھے اور سلطنت کے حکمراں بھی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیاہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے دائود علیہ السلام کو روئے زمین پر خلیفہ بنایاہے۔ یہ لفظ اور پوری تشریح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ اور حکمران کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت اور ان کے تخلیق کردہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نظام مملکت کو چلانا ہے۔ عدل وانصاف کو قائم کرنا بنیادی ذمہ داری ہے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن