سموگ کے بادل چھٹ گئے، سیاست میں دھند برقرار

ملک کے  بیشتر علاقوں پر چھائی اسموگ کا اثر زائل ہورہا ہے اور رواں ہفتے اسموگ کے بادل چھٹ گئے مگر ملکی سیاست پر بدستور دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور نفرت انتشار اور عدم برداشت کی سیاست نے سیاسی ماحول کو اسموگ کیطرح زہر آلود کر رکھا ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے باعث ملکی معیشت بھی متزلزل ہے اور کاروبار زندگی مفلوج ہے۔ رواں ہفتے موسمی اسموگ کے بادل چھٹنے کے بعد  صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں مرحلہ وار تعلیمی ادارے دوبارہ کھول دئے گئے ہیں اور مارکیٹوں،پارکس اور ریسٹورنٹس وغیرہ پر عائد پابندیوں اور لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے تاہم اس وقت سیاسی صورتحال پر بے یقینی کے بادل منڈلا رھے ھیں۔ پی ٹی ائی کی جانب سے ایک مرتب پھر  24 نومبر  کو احتجاج کی کال دی گئی ہے جس پر ملکی سطح پر سیاسی ہلچل میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ احتجاج اور بیک ڈور مذکرات کی باتیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ان حالات میں بانی پی ٹی آئی کی ایک بڑے کیس توشہ خانہ ٹو میں بھی ضمانت ہوگئی ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین  اپنے اپنے انداز میں تبصرے کررہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی جانب سے 24 نومبر کی دی گئی کال پر پاکستان تحریک انصاف اگرچہ متحرک ہے تاہم ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں مرکزی قیادت کی جانب سے رابطوں کا فقدان دکھائی دیتا ہے، ملتان سمیت پورے جنوبی پنجاب  میں کارکنان اپنی مدد آپ کے تحت 24 نومبر کی کال پر اسلام اباد پہنچنے کی تیاریاں ضرور کر رہے ہیں دوسری جانب پولیس کی جانب سے بھی پی ٹی آئی متحرک کارکنوں کی فہرستیں مرتب کر لی گئی ہیں اور حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کے تحت بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا امکان ہے۔ 
پی ٹی ائی کی طرف سے تاحال  24 نومبر کو دی گئی احتجاج کی کال پر ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں کسی قسم کا کوئی بڑا  تحرک دیکھنے میں نہیں آیا ھے۔ پارٹی کے اہم رہنما کارکنوں کے ساتھ رابطوں میں نہیں ھیں۔ ملتان میں موجود پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما ملک عامر ڈوگر کے سوا عوام کے ساتھ تاحال کسی کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ جیل میں موجود سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین حسین قریشی کو شوکاز نوٹس کے اجرا کے بعد سے وہ بھی غیر فعال نظر آرھے ھیں۔  24 نومبر کی کال پر ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے اہم پارٹی رہنما تاحال متحرک نہ ہو سکے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ھے کہ پکڑ دھکڑ اور ممکنہ مقدمات سے بچتے ھوئے رھنما ازخود اسلام آباد یا پشاور پہنچ سکتے ھیں۔ جبکہ کارکن اپنی مدد آپ کے تحت خود ھی باھر نکل سکے تو آئیں گئے۔ اس میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پارٹی کی اعلی کمان کی جانب سے بھی ساری توجہ کے پی کے پر تو ہے مگر پنجاب سے وہ کوئی بھی بڑا تحرک کرنے میں بھی دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں۔ گزشتہ احتجاج کی کالز پر بھی ملتان سمیت جنوبی پنجاب سے کارکنان کی مایوس کن تعداد احتجاج کے لیے باہر نکلی تھی، اس وقت کی صورتحال تو یہی ھے کہ پارٹی کے اراکین اسمبلی اور اہم رہنما کارکنان کے ساتھ رابطوں میں نہیں ہیں۔  بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی بیماری کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی کال پر متحرک نظر آرہے ہیں۔ ان کے داماد  ٹکٹ ہولڈر پی ٹی آئی مخدوم زاہد بہار ہاشمی نے مختلف علاقوں میں  رابطے شروع کیے ہیں تاہم 24 نومبر کو جلوس کی شکل میں موٹروے کے راستے اسلام آباد جانے کا تاحال ان کا بھی کوئی پلان سامنے نہیں آسکا ہے۔
 ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں مرکزی اور اہم رہنماؤں کے عوام کے ساتھ رابطوں میں نہ انے پر کارکنان مایوسی کا شکار ھیں۔ ماضی میں بھی کارکنان پولیس کے ہاتھوں مقدمات اور مار پیٹ برداشت کرتے رہے ہیں۔ 24 نومبر کو اگر مقامی رہنماؤں نے عوام کے جلوس کی قیادت نہ کی تو کارکنان  ایک بار پھر 24 نومبر کو بھرپور انداز سے  باہر نہیں نکلیں گے۔ جبکہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ ملک عامر ڈوگر، عون عباس بپی ، زرتاج گل، مخدوم زین قریشی ،خواجہ شیراز  سمیت دیگر رہنما اپنے حلقوں سے کارکنوں کو اسلام آباد لیجانے کی بجائے خود جلسوں پر نمایاں دکھائی دینے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جبکہ کارکنوں کا یہ شکوہ بھی جائز ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے کارکنوں کو حکومتی طاقت کے سامنے مزاحمت کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ملتان میں نشتر ہسپتال میں ڈائلسز کی سہولیات تو میسر ہیں لیکن ان سہولیات سے استفادہ کرتے کرتے مبینہ طور پر دو درجن سے زائد افراد ایڈز جیسے مہلک وائرس میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں مگر ہسپتال انتظامیہ کی سطح پر اس واقعہ پر ایکشن نہیں لیا جارہا تھا۔  تاہم اب یہ پتہ چلا ہے کہ ان مشینوں میں ڈائیلسسز  سے قبل مریضوں کی سکریننگ نہیں کی جارہی تھی  وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے بھی اس معاملے کی حساس نوعیت کو سمجھتے ہوئے از خود نوٹس لے لیا ہے۔ ان کے نوٹس لیے جانے کے بعد ایک نئی  تحقیقاتی کمیٹی الگ سے بھی قائم ہو چکی ہے۔ ان تحقیقاتی رپورٹوں کی روشنی میں آنے والے وقت میں پتہ چلے گا کہ ایڈز کے مہلک وائرس کے منتقلی کے اصل ذمہ داران کون ھیں۔

ای پیپر دی نیشن