ْپاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی چیئرمین کی جانب سے 24نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کی کال نے ایک مرتبہ پھر کاروباری حلقوں میں بے چینی پھیلادی ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت میں دھرنے و احتجاج کو روکنے کے لیے جڑواں شہروں میں رکاوٹیں لگاناشروع کردی ہیں۔ حکومتی مشینری کنٹینرز اکھٹے کرنے میں مصروف جبکہ عام شہری راستوں کی ممکنہ بندشوں کے تصور سے ہی پریشان حال ہیں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عمران خان کے احتجاج کی کال پر بظاہر تو دو حصوں میں تقسیم ہے تاہم بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے اس احتجاج کو لیڈکرکہ عمران خان پر اپنے اعتماد کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں ادھر عمران خان نے بھی علی امین گنڈپور اور بیرسٹر گوہر کو طاقت ور حلقوں سے مذاکرات کا ٹاسک دے دیا ہے پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر وفاق پر چڑھائی کی کال دیتے ہوئے ملک بھر سے قافلوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں اس بار پی ٹی آئی قیادت علی امین گنڈاپور سے زیادہ انحصار بشریٰ بی بی کی جارحانہ حکمت عملی پر کررہی ہے کیونکہ جیل سے رہائی کے بعد بشریٰ بی بی پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے ساتھ مل کر احتجاجی سیاست میں عملی طورپر شریک ہوچکی ہیں وہ پارٹی قیادت سے مسلسل ملاقاتیں کررہی ہیں اور ان کی جانب سے پارٹی کو متحد کرنے کے ساتھ ساتھ ورکرز کو موبلائز کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں سابق خاتون اول اپنے اراکین اسمبلی کو سخت ہدایات دے چکی ہیں کہ اس احتجاج میں لوگ نکلیں گے تو عمران خان کی رہائی ممکن ہے ادھر بشری اور حلیمہ خان کے درمیان بھی پارٹی میں اپنی حیثیت منوانے کی رسہ کشی جاری ہے۔ عمران خان کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اگر اس ماہ پی ٹی آئی کا احتجاج مؤخر ہو ا تو اگلے تین ماہ میں لوگوں کو موبلائز کرنا موسمی اعتبار سے بھی کارگر ثابت نہیں ہوگا عمران خان کی احتجاجی کال سے راولپنڈی اسلام آباد کا کاروباری طبقہ نالاں ہے وہ دھرنا سیاست سے عاجز آچکے ہیں راستوں کی بندش سے ان کے کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیںحکومت بھی راستوں کی بندش سے عام آدمی کو عمران خان سے ہی متنفر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ان کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں رک رہی ہیں ملکی سیاست پر دھرنا سیاست کے علاوہ بھی بہت کچھ رونما ہورہاہے وفاق میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بنچ سرعت کے ساتھ مقدمات نمٹانے میں مصروف ہے جبکہ سپریم کورٹ آئینی مقدمات منتقل ہوجانے کے باعث اب خزاں کے موسم کا حال سنا رہی ہے کیونکہ عدالت عظمٰی سے اب سیاست کی ہلچل پر مبنی خبریں کم موصول ہورہی ہیں ادھر آئی ایم ایف سفارشات پر صوبوں نے بھی زرعی ٹیکس کے نفاذ کے قوانین منظور کرلیے ہیں جو یکم جنوری سے نافذ ہونے جارہے ہیں جس پر کسانوں کو بھی ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے تاہم وفاقی حکومت پنجاب اور کے پی کا شکر یہ ادا کرچکی ہے کہ انہوں نے زرعی ٹیکس کے معاملے پر پہلے ہم ورک مکمل کرلیاہے ادھر پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) کی جانب سے ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ شدہ ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک ( وی پی این) کی 30نومبر سے بندش کے اعلان سے بھی آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ افراد اور کمپنیوں نے سخت احتجاج ریکارڈ کروایا ہے کہ حکومت ملک میں انٹر نیٹ پر بندشیں لگاکر اپنے مقاصد تو حاصل کررہی ہے لیکن آئی ٹی انڈسٹری ان اقدمات کے باعث بہت خسارے کا شکار ہو گئی ہے ای کامرس اور فری لانس کے طورپر کام کرنے والے ان بندشوں سے بیروز گار ہو رہے ہیں ادھر پاکستان میں چینی باشندوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات پر چین کی حکومت نے بھی وفاقی حکومت سے پاکستان میں جاری منصوبوں پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے موثر و ٹھوس اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی مانگ لی ہے جس پر حکومت پاکستان نے انہیں ان منصوبوں کی سکیورٹی کو مزید بڑھانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سینیٹ کو بتایا ہے کہ 30 نومبر کے بعد ملک میں غیر رجسٹرڈ شدہ 'ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک' (وی پی این) کام کرنا بند کر دیں گے، یعنی کئی عام صارفین کے لیے سرکاری طور پر بندش کا نشانہ بننے والی ویب سائٹس جیسے ایکس (سابقہ ٹوئٹر)تک رسائی ناممکن ہوجائے گی۔
پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی و ٹیلی کام کے اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے ریٹائرڈ میجر جنرل حفیظ الرحمان نے کہا کہ ’ابھی پاکستان میں وی پی این چل رہا ہے، بند نہیں ہوا۔ان کے مطابق پی ٹی اے کو معلوم ہے کہ ملک میں آئی ٹی کی صنعت ’وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی‘ اسی لیے پاکستانی حکام کا منصوبہ ہے کہ ملک میں کاروبار، آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے لیے 30 نومبر تک وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا جائے۔اس صورتحال نے پاکستان میں عام صارفین کو اس تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ آیا وہ 30 نومبر کے بعدبھی اِن ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر پائیں گے جنھیں حکام نے 'قومی سلامتی' کے نام پر یا کسی اور وجہ سے بند کر رکھا ہے۔