رانا ضیاء جاوید جوئیہ
اللہ کریم نے کائنات سمیت سبھی کچھ تخلیق کیا اور اللہ کریم نے ہی سبھی کے لئے سب اسباب مہیا کرنے کے انتظامات کر رکھے ہوتے ہیں ہم با آسانی کہہ سکتے ہیں کہ رزق جیسی نعمت بھی ہزاروں میٹر اونچی چوٹیوں پر کسی پتھر کے نیچے موجود کیڑوں کو بھی مل جاتا ہے اور زمین یا سمندر کی تہہ میں موجود مخلوقات کو بھی رزق ملتا رہتا ہے اسی طرع جب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو پھر وہ مسائل بھی مناسب وقت پر اللہ کریم حل فرما دیتے ہیں ہمارا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شیطان کی موجودگی جو ہمیں اللہ کریم کی رحمتوں سے بھی بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات مایوس کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہم غلط طور پر یہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ شاید اب ان مسائل کا کوئی حل ہمیں نہی ملے گا میری اس تمہید کی غرض و غایت صرف اور صرف یہ ہے کہ میں آج کے ہمارے پیارے پاکستان اور اس کے مسائل اور اللہ کریم کی رحمتوں پر کچھ بات کر سکوں
قارئین گرامی اچھے بھلے نام نہاد فلاسفر ٹائپ پاکستانی بھی آج یہ جابجا کو بکو کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان تباہ ہو چکا ہے، پاکستان میں اب کچھ بھی ٹھیک نہی ہے، نہ پاکستان کی حکومت ٹھیک ہے ، نہ پاکستان کی افواج ٹھیک ہیں، نہ پاکستان کی عدلیہ ، نہ ہی انتظامیہ بلکہ پاکستان میں اب کچھ بھی ٹھیک نہی ہے لیکن یہ فلاسفر حضرات یہ بات کرتے ہوئے دو بنیادی باتیں بھول جاتے ہیں پہلی بنیادی بات یہ کہ اگر پاکستان کے سارے ادارے اور سب کچھ خراب ہے تو اسکے ذمہ دار ہم عوام خود ہی ہیں کیونکہ نہ تو ہماری افواج امریکہ سے آئی ہیں، نہ ہی ہماری عدلیہ اسرائیل سے آئی ہے ، نہ ہی ہماری بیوروکریسی بھارت سے آئی ہے ان سب اداروں اور حکومتوں کے تمام افراد پاکستانی شہری ہی ہیں اور ان سب کا تعلق ہم میں سے کسی نہ کسی گھر سے ہی ہے۔ مطلب ہمارا اپنا محاسبہ ہم کرنے کی بجائے بس دوسروں پر الزام لگا کر اپنے آپ کو مطمئن کر رہے ہیں اور دوسری بنیادی بات ہم یہ بھلاتے جا رہے پیں کہ اللہ کریم اپنی تمام تر صفات اور رحمتوں کے ساتھ ہر پل ہر جگہ موجود ہیں اور اللہ کریم کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند بلکہ اللہ کریم نے ہمیں واضح طور پر یہ فرمایا ہے کہ ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں‘‘ پاکستان ہمارے لئے ایک بہت ہی بڑے عطیہ خداوندی کے طور پر ہمیں ملا ہے اور پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہ ہونے کا درس ہمیں اس واضح حکم خداوندی سے ملتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں یقینا اللہ کریم ہماری حالت پر رحم فرمائیں گے اور ہمیں ہدایت عطا فرمائیں گے اور ہمیں خود اپنا محاسبہ کر کے خود کو ٹھیک کرنے کی طاقت عطا فرمائیں گے اور قارئین گرامی یقین کیجئے گا جس دن ہم خود ٹھیک ہو گئے اس دن سب کچھ ٹھیک بھی ہو جائے گا اور ہمیں بھی سب ٹھیک نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ اس حوالے سے رسول مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک آپکو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ جس میں کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ زمانہ کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں ۔
زمانہ سارا خراب ہے، کچھ کے مطابق آدھا ٹھیک اور آدھا خراب ہے اور کچھ کے نزدیک سارا ہی خراب ہے۔ اس سوال کے جواب میں کیا ہی تاریخ ساز بات فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دراصل جس طرح ایک آئینے میں ہر ایک کو اپنی ہی تصویر نظر آتی ہے اسی طرع جو کہتا ہے سارا زمانہ خراب ہے وہ دراصل خود مکمل طور پر خراب ہے اورجو کہتا ہے آدھا ٹھیک اور آدھا خراب ہے وہ خود آدھا ٹھیک اور آدھا خراب ہے اور جو کہتا ہے سارا ٹھیک ہے وہ خودمکمل طور پر ٹھیک ہے تو قارئین گرامی میرے جیسے بندے کے مطابق نہی بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر ہمیں پاکستان میں سب کچھ بس صرف خراب ہی نظر آتا ہے تو ہمیں پاکستان سے پہلے خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور جس روز ہم خود ٹھیک ہو گئے پھر سب کچھ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک اور پہلو میں قارئین گرامی سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک گلاس میں آدھا گلاس پانی سے بھرا ہو تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہوا ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدھا گلاس خالی ہے بالکل اسی طرع ہم پاکستان میں موجود اچھائیوں کی بات بھی کر سکتے ہیں اور صرف برائیوں کی بھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ دشمن نے ہماری اخلاقی اور زہنی پستی کو اس سطح پہ پہونچا دیا ہے کہ ہمیں بس پاکستان میں صرف برائیاں ہی نظر آتی ہیں اور اس کی اچھائیاں یا تو ہمیں نظر ہی نہی آتیں یا ہمیں اچھائیاں ڈسکس کرنے کا وقت ہی نہی ملتا جبکہ پاکستان میں بہت زیادہ ایسی باتیں موجود ہیں جن پر ہم فخر محسوس کر سکتے ہیں مثال کے طور پر ہمیں پاکستان میں اکثریت کے گھروں میں یہ نظر آتا ہے کہ بچے اپنے والدین کی خدمت کر رہے ہیں، بہت زیادہ نظر آتا ہے بھائی چارہ کہ بھائی ایک دوسرے کی سپورٹ کرتے ہیں اسی طرع بڑوں کا احترام ، بچوں سے محبت ، میاں بیوی کے درمیان اعتماد ، ہمسایوں کے ساتھ بہترین سلوک مختصراً بہت سی ایسی اخلاقی اقدار نظر آتی ہیں جو کسی اور ملک میں کم کم ہی نظر آتی ہیں، اسی طرح ہمارے ملک میں مجھے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کمیونٹی لائف مضبوط ہے اب مسجدیں ہمیں پاکستان میں جو بھی نظر آتی ہیں ان سب کو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی چلا رہے ہیں بجلی کے بل بھی مسجدوں کے عوام ہی بھر رہے ہیں اور امام مسجدوں کی تنخوائیں بھی عوام ہی دے رہے ہیں اور مسجدیں تعمیر بھی عوام خود ہی کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد مفکرین کو مسجدوں سے متعلقہ یہ کنٹری بیوشنز نظر نہی آتیں انہیں نظر آتا ہے تو بس یہ کہ کوئی مسجد سے جوتے اٹھا کر لے گیا یا کوئی مسجد کی ٹونٹی چوری کر کے چلا گیا جبکہ یہ ٹونٹیاں لگوانے والے مخیر حضرات اور ان کے جزبے ان مفکرین کو نظر نہی آتے اسی طرح پاکستان کے ہسپتالوں میں مریضوں کو ہر روز لاکھوں بوتلیں خون عطیہ کرنے والے ڈونرز ان فلاسفروں کو نظر نہی آتے میں ذاتی طور پر کچھ ایسے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو ہر روز ایک ہی بندہ ایک پورے ہسپتال کے مریضوں اور لواحقین کو کھانا کھلا دیتا ہے اور کوئی اور اللہ کا بندہ ہر روز دو لوگوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لئے ڈیڑھ کروڑ ہر روز دے دیتا ہے یہ سب ہمارے معاشرے کا جھومر اور خوبصورتی ہیں ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ملک کے لوگوں کی برائیاں دیکھنے کی بجائے ایسے بہترین لوگوں کو دیکھیں جو کسی اور معاشرے میں خال خال ہی ملتے ہیں
اسی طرح ہم اپنے اچھے بھائیوں کی اچھائیوں کو دیکھ کر ان کو فالو کرنے کی کوشش کریں نہ کہ بس برے برے کی گردانیں جاری رکھیں پاکستان بھی بنتا ہے ہم پاکستانیوں سے اور جس طرح ہمارے لوگوں میں بہت بہترین اور قابل تقلید باتیں موجود ہیں بالکل اسی طرع ہمارے ملک پاکستان میں بھی ایسی ان گنت خوبیاں ہیں جن کی بنا پر مجھے پاکستان میں پاکستانی کے طور پر رہنے پر فخر محسوس ہوتا ہے اور اگر آپ اقوام عالم بالخصوص عالم اسلام میں جا کر دیکھیں تو آپکو فخر محسوس ہو گا کہ عالم اسلام اب بھی امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھتا ہے ہم نے سب مسائل کے باوجود ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور ہم کسی بھی طرح کی جارحیت سے بوقت ضرورت پاکستان کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر ہمارا پوٹینشل یہ ہے کہ ہم پورے عالم اسلام کا دفاع کر سکتے ہیں یقین کیجئے اگر آج پاکستان صرف اتنا کہہ دے کہ ہم نے ایٹم بم کھلونے کے طور پر نہی بنایا بلکہ اگر اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی بند نہ کی تو پاکستان تمام آپشنز غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے استعمال کر سکتا ہے تو اسی دن اسرائیل نہ صرف مظالم سے باز آ جائے گا بلکہ اُمت مسلمہ سے اسرائیل باقاعدہ معافی بھی مانگ لے گا ۔
قارئیں گرامی مثبت سوچ کا یہ مطلب قطعی نہی کہ ہم اپنی برائیوں کو جاری رکھیں اور سب اچھا سوچ کر مزید تباہ ہوتے جائیں بلکہ ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے اندر موجود تمام برائیوں سے جنگ کریں اور اپنے معاشرے سے ظلم و جبر نا انصافی کرپشن کا مکمل خاتمہ کریں بلکہ اپنے اندر موجود تمام مسائل پر قابو پائیں اور اپنی اصلاح کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کے ساتھ اللہ کریم کی رحمتوں سے مایوس نہ ہوں اور پاکستان کو بہتر سے بہترین ملک بنائیں ان شاء اللہ اللہ کریم ہمیں مایوس نہی فرمائیں گے۔