انگلستان میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی

تیزی سے بدلتے اپنے ملکی سیاسی اور معاشی حالات کا رونا آج پھر رونے لگا ہوں کہ مسائل کے گرداب میں پھنسی قومیں مہنگائی، بے روزگاری، انجانے خوف اور غیریقینی صورتحال سے جب دوچار ہو جائے تو ایسے حالات میں قومی رونا ہر شہری کا مقدر بن جاتا ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ ان سطور کا آغاز آج کس موضوع سے کروں کہ لندن میں رونما ہونے والے حالیہ بعض سیاسی واقعات سے وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور جس جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا، اس شرمندگی کو بھلانا ممکن نہیں۔ گزشتہ کالم میں سابق وزیر اور مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ رکن قومی اسمبلی محمد اعجازالحق سے کی جانے والی ہلکی پھلکی سیاسی گفتگو کو ایک اچھی خاصی تعداد نے پسند تو کیا مگر فارم 45 اور فارم 47 کے حتمی فیصلے تک اپنا ’’سیاسی رولا‘‘ جاری رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ میری دو گوری کولیگز نے جو میرے بعض کالموں کا انگریزی ترجمہ ’’سواد‘‘ لے کر پڑھتی ہیں، اپنے پازیٹو ریمارکس تو دیئے مگر سوال ان کا پھر وہی پرانا تھا کہ آپ کے آبائی وطن سے نجی، سرکاری یا پھر علاج معالجے کیلئے لندن آنے والے سیاست دانوں، وزیروں، مشیروں اور سیاسی لیڈروں کیخلاف پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور ان کیخلاف استعمال کی گئیLanguage Foul  کے پس پردہ آخر مقاصد کیا ہیں؟ اس مشکل ترین سوال کا جواب دینا میرے لئے انتہائی آسان ہے مگر کیا کروں‘ پھر گھسا پٹا میرا وہی پرانا فقرہ کہ ’’معاملہ چونکہ اپنا ٹڈھ ننگا کرنے کا ہے‘‘ جو کسی صورت بھی میرے لئے ممکن نہیں۔ اس لئے سیاست اور ماحولیات کے موضوع کو یکجا کرکے ان ’’پجاریوں‘‘ کو مطمئن کر دیتا ہوں ورنہ سوال تو ان کا حقیقت پر مبنی ہے۔ 
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف، پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کیخلاف جس نوعیت کے احتجاجی مظاہرے اور جس طرح کے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے، بلاشبہ وہ قابل مذمت ہیں کہ وطن عزیز میں مبینہ طور پر ہونے والی بے انصافیوں، ظلم و بربریت مجبور اور کمزور لوگوں کی پکڑ دھکڑ، سیاسی انارکی اور انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف احتجاج اگر کرنا بھی ہو تو برطانیہ میں مہذبانہ طریقہ روا رکھنا ناگزیر ہے۔ ویسٹ منسٹر سے حاصل کئے جمہوری رول ماڈل کی یہی تو خوبصورتی ہے کہ مہذبانہ آزادی رائے پر یہاں قطعی قدغن نہیں، مگر افسوس! دیگر لیڈروں سمیت خواجہ محمد آصف سے ٹرین میں دوران سفر مبینہ طور پر بعض افراد نے جو رویہ اختیار کیا، وہ کسی بھی صورت قابل تعریف نہیں تھا۔ 
اسے بھی حسن اتفاق کہہ لیں کہ میرا اور محترم خواجہ آصف کا تعلق شہر اقبال سے ہے، سیالکوٹ کے سابق میئر اور ممتاز سماجی شخصیت کیپٹن (ریٹائرڈ) ڈاکٹر محمد اشرف آرائیں کا خواجہ آصف سے جس طرح دیرینہ برادرانہ تعلق قائم ہے، ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی اسی طرح اپنے انتہائی قریبی احباب میں شامل کر رکھا ہے۔ خواجہ صاحب سمندر پار مقیم اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کو جب بھی کوئی سیاسی طعنہ دیتے ہیں، اس کا ذکر میں ڈاکٹر اشرف صاحب سے ضرور کرتا ہوں کہ خواجہ صاحب کے ہر دوسرے تیسرے ماہ ایسے دیئے ’’بائی لینگول‘‘ طعنوں کا میں بہت بڑا نقاد ہوں۔ ماضی قریب میں محترم خواجہ صاحب کے برطانوی پاکستانیوں کو دیئے اس طعنے سے کہ ’’انگریزی بولنے والے‘‘ اور ’’اپنے عزیزوں کو سپرد خاک‘‘ کرنے کے بعد واپس لوٹ جانے والوں کو لندن میں احتجاج اور مظاہرے کرتے وقت اپنے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ دلی دکھ اور صدمہ پہنچا تھا مگر اب لندن میں ہی پیش آنے والے اس ناخوشگوار واقعہ کی انہی انگریزی بولنے والوں کی بڑی تعداد نے شدید مذمت کی ہے جنہیں ماضی میں خواجہ صاحب طعنہ دے چکے ہیں۔ خواجہ محمد آصف کے پاکستان ہائی کمشن کے دورہ کے دوران 11 نومبر 2024ء کی سہ پہر ’’ریڈنگ‘‘ جاتے ہوئے ٹرین کے سفر کے دوران ایک خاندان کے بعض افراد کی جانب سے انہیں ہراساں اور چھری سے قتل کرنے کی دھمکی کی برٹش ٹرانسپورٹ پولیس کو باقاعدہ رپورٹ درج کروادی ہے۔ تاہم پولیس کی تحقیقات کا اب انتظار کرنا ہوگا۔ میں دوبارہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ برطانوی مہذب معاشرے کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستانیوں کو قوت برداشت کا دامن ہاتھ سے ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے کہ پاکستان کی عزت و وقار کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ وطن عزیز کے معاشی، اقتصادی اور سیاسی حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں، بے روزگاری نے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ بیشتر نوجوان غیرقانونی طریقوں سے وطن چھوڑ رہے ہیں۔ 
قومی کمشن برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ کے مطابق غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے ممالک میں پاکستان اب پانچویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ 2022ء میں یورپ جانے والے دس ممالک میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری میں تعطل پیدا ہو چکا ہے، ہم باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ 203 ارب روپے کی مقروض ایئرلائن جس کے کل اثاثے 150 ارب ہیں، مبینہ طور پر اب یوکے ایئر سیفٹی لسٹ معاملے سے بھی دوچار ہوچکی ہے۔ 
دوسری جانب ملکی سیاسی صورتحال مزید گھمبیر ہوتی نظر آرہی ہے، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان جیل سے اپنی پارٹی کے تمام رہنمائوں، ورکروں اور طلبہ کو 24 نومبر2024ء یعنی ٹھیک دو روز بعد بھرپور مگر فیصلہ کن احتجاجی مظاہرے کی کال دے چکے ہیں۔ ان حالات میں جب سردی اور سموگ کی صورتحال بدستور مخدوش کن ہے، عام شہری کی مہنگائی نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، پی ٹی آئی کے اس فائنل احتجاجی مظاہرے کے کیا نتائج برآمد ہونگے، انتہائی مشکل سوال ہے، مگر اوورسیز پاکستانیوں کو اس سوال کا جواب کون دے گا؟

ای پیپر دی نیشن