ان دنوں سموگ ہمارے ذہنوں پر یوں سوار ہو چکا ہے کہ کچھ اور سوچنے کو سجھائی ہی نہیں دیتا۔ سموگ فی الحقیقت ہر گھر کا روگ بن چکا ہے۔ کسی گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو سموگ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ پہلے کرونا وائرس نے ہماری زندگیاں ادھیڑیں۔ پھر ڈینگی کے ڈنک لگنے شروع ہوئے اور اب سموگ انسانی زندگیوں کے لیئے زہرِ قاتل بنا دندناتا نظر آرہا ہے۔ گذشتہ سالوں کی طرح اب کی بار بھی سموگ نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ لاہور کومتاثر کیا جہاں آج بھی کاروبارِ زندگی مفلوج ہے، حکومت کے پاس بس یہی چارہ کار رہ گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کر دو، تعلیمی ادارے اور مارکیٹیں بند رکھو، شادیوں کی تقریبات مؤخر کردو، سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو محدود کر لو اور پھر اپنی پیدا کردہ خوف و ہراس کی فضا سے اپوزیشن کے خلاف اپنے سیاسی مقاصد بھی پورے کر لو۔ اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کو بھی مورد الزام ٹہھرا لو۔ اس پالیسی سے حکمرانوں کا کاروبار چل رہا ہے اور عوام ہیں کہ بدحال ہوئے جاتے ہیں۔ آئیے آج ہم آپ کو سموگ کی تاریخ و محرکات سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔ آپ یہ مت سوچیئے کہ سموگ کہیں تازہ تازہ وارد ہوگیا ہے۔ "سموگ" کی اصطلاح سب سے پہلے امریکا اور یورپ میں 1900ء کی دہائی کے اوائل میں فضا میں دھوئیں اور دھند سے جنم لیتا مرکب بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اس وقت دھواں عموماً جلتے کوئلے سے نکلتا تھا۔ یہ کوئلہ کارخانوں اور گاڑیوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے، اس زمانے کے امریکا اور یورپ میں صنعتی علاقوں میں سموگ عام تھا۔
آج پاکستان میں فضائی آلودگی اہم ماحولیاتی خطرہ بن چکی۔ ہمارے ہاں شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں اور صنعتی ترقی ہو رہی ہے، ایسے میں فضائی معیار کا مسئلہ بڑھ گیا ہے جو صحت عامہ اور ماحولیاتی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکا۔پاکستان ایک بھرپور ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن سے مالامال ملک ہے مگر اب اسے سخت ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہر اکثر سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں جو گھٹتے فضائی معیار کے بحران کی سنگین یاد دہانی ہے۔ ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کئی شہر مسلسل عالمی سطح پر آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تشویشناک حقیقت عیاں کرتی ہے کہ پاکستان کو بعجلت فضائی آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔پاکستان میں فضائی آلودگی کی شدت کے چونکا دینے والے اشارے میں سے ایک’’ متوقع زندگی‘‘ پر اس کا اثر ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی پاکستان میں اوسط عمر 3.9 سال تک کم کر رہی ہے۔ اقتصادی طور پر بھی نقصان اتنا ہی اہم ہے۔ اندازہ ہے کہ فضائی آلودگی سمیت ماحولیاتی تنزلی سے پاکستان کو اس کی جی ڈی پی کا تقریباً 6 فیصد سالانہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاشی نقصان مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے: آلودگی سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات، محنت کی پیداوار میں کمی، اور آلودہ ہوا کی وجہ سے پاکستان میں فضائی آلودگی کے بحران میں بھارت سے آنے والی آلودگی غیر معمولی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں اس میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی فضائی آلودگی کے بارے میں ایک حیران کن حقیقت عوامی صحت پر اس کے اثرات ہیں۔ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر کی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔اس کی وجہ سے سالانہ کئی ہزار قبل از وقت اموات ہونے لگی ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف ایک عدد نہیں بلکہ ماحولیاتی نظر اندازی کی انسانی قیمت کا سنگین اشارہ ہے۔
علاوہ ازیں معاشی مضمرات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ فضائی آلودگی سمیت ماحولیاتی تنزلی پاکستان کو اس کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد سالانہ خرچ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ معاشی بوجھ فوری کارروائی اور پالیسی مداخلت کے لیے ایک جگا دینے والی کال ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کا بحران پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی ایسا بحران بن چکا جو لاکھوں لوگوں اور ماحولیات کو گہرائی میں متاثر کررہا ہے۔ اس کے شہر اکثر سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ قوم کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔ آج عوام کے لیے درپیش فضائی آلودگی کے مسئلے کی سنگینی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مسئلہ اتنا زیادہ سنگین ہے کہ اس نے غلط وجوہ کی بنا پر پاکستانی شہروں کو عالمی نقشے پر نمایاں کر دیا ہے۔ اب وہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ 1980 ء کی دہائی سے بھارت کے خصوصاً زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ کی شدت موسم سرما میں بڑھنے لگی۔ جیسے جیسے کھیتوں ، گاڑیوں اور انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، فوٹو کیمیکل سموگ کو جنم دینے والے عناصر بھی زیادہ مقدار میں جنم لینے لگے۔ یہی وجہ ہے، اب سموگ ایک نمایاں ماحولیاتی آفت بن چکی جو ماحول اور انسانی صحت ، دونوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ بہرحال ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے عوام کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے شہریوں کو بتایا جانا چاہیے کہ فضائی آلودگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں وہ کن اقدامات کے ذریعے سموگ کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے خصوصی تربیت اور آگاہی سیشنز منعقد کیے جا سکتے ہیں تاکہ نئی نسل کو ماحولیاتی مسائل کا احساس ہو اور وہ مستقبل میں اس حوالے سے بہتر اقدامات اٹھا سکے۔چین نے اپنے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور پالیسیز متعارف کرائی ہیں۔ چین نے فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، کوئلے کے استعمال کو محدود کیا ہے اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان بھی اسی طرز پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ اس لیئے سموگ کی آڑ میں محض سیاست نہ کیجیئے، اس سے عوام کو خلاصی دلانے کے حقیقی اقدامات بھی اٹھائیے۔
سموگ کے ہماری معاشرت پر اثرات
Nov 21, 2024