گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بیان دیا کہ پاکستان موجودہ کسی عالمی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے اور پاکستان کو اسی پالیسی پر مکمل کاربند رہنا چاہئے کیونکہ ہم نے ماضی میں بہت غلطیاں کی ہیں جس سے ہم معاشی طور پر بہت نقصانات اٹھارہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کو دہشت گردی ‘ اسلحہ و منشیات کے جرائم کا شکار بنادیا۔ اب آرمی چیف کے واضح بیان کے بعد مکمل طور پر اس پر کاربند رہنے میں ہی ہماری بقاء ہے اور اگر کوئی بھی سیاسی شخصیت اس سے ہٹ کر پالیسی اختیار کرتی نظر آئے تو اس کا ہر سطح پر محاسبہ ضروری ہے۔
1979ء کے آخر میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے قبل جب پشاور میں حکومت پاکستان نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو ہیڈ کوارٹر بناکر افغانستان کے خلاف بولنے کی اجازت دی تو سبھی خاموش رہے لیکن ایئرمارشل اصغر خان نے کہا کہ یہ طرز عمل درست نہیں۔ کل اگر افغانستان میں کوئی پاکستانی بیٹھ کر ملک مخالف باتیں کرے گا تو ہم سے برداشت نہیں ہوں گی۔ واضح رہے کہ امریکہ نے ویتنام میں جنگ چھیڑی تھی تو سوویت یونین کی مداخلت کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے امریکہ نے یاد رکھا اور موقع کی تلاش میں رہا کہ کہاں اور کیسے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا ہے۔ سوویت یونین اور امریکہ دونوں سپر پاورز تھیں اور یہ باہم دست و گریباں رہتی تھیں لیکن ان دونوں کے دست و گریباں رہنے سے مسلمان ممالک قدرے امان میں تھے اور سپرپاورز کی توجہ باہمی کشمکش کی جانب ہی رہنے سے امریکہ کی توسیع پسندی قدرے کم تھی۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو امریکہ نے اسے غنیمت جانا اور کابل پر سوویت پرچم لہرائے جانے تک امریکہ نے پاکستان میں یہ تاثر عام کردیا کہ سوویت یونین کی اگلی منزل اسلام آباد ہے اور وہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے ہر صورت آگے بڑھے گا اور اسکا اصل ہدف پاکستان ہی ہے۔امریکی ڈالرز کی برسات‘ اسلحہ‘ تربیت اور پروپیگنڈہ اس قدر موثر ثابت ہوا کہ سوائے ولی خان اور ایئرمارشل اصغر خان کے تمام سیاسی‘ مذہبی لیڈرز‘ حکمران اور عسکری قیادت امریکہ کے جھانسے میں آگئی اور انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کی غلطی کرلی کہ یہ جنگ اصل میں پاکستان کی جنگ ہے لیکن ان تمام امریکی کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ سوویت یونین سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
ایئرمارشل اصغر خان مرحوم نے برملا کہا کہ سوویت یونین کا تعاقب نہ کیا جائے کیونکہ وہ واپس جارہا ہے اور اگر ہم نے کوئی غلطی کی تو ہماری آئندہ 3نسلیں اس کے بدترین اثرات کا شکار رہیں گی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی اور انہیں ’’روس کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ کابل کی فتح کے بعد پاکستان نے امریکی اشاروں پر نہ ختم ہونیوالی غلطی کا آغاز کیا اور اس سے پہلے کہ خدانخواستہ سوویت فوجیں پاکستان کی جانب پیشقدمی کرتیں‘ پاکستان نے افغانستان میں جاکر انکا تعاقب کیا اور امریکی فنڈنگ اور امداد کی بنیاد پر روس کو بدترین شکست سے دوچار کیا حالانکہ سوویت یونین کے پاس سینکڑوں ایٹم بم تھے لیکن وہ معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث نہ صرف بدترین شکست سے دوچار ہوا بلکہ اپنی سالمیت برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس طرح ایک سپر پاور کا دنیا سے خاتمہ ہوا۔ہم نے امریکی مفادات کی جنگ میں 1979ء سے حصہ لیا لیکن اس وقت امریکی ڈالرز کی چمک کے باعث اسے پاکستان کے مفاد کی جنگ قرار دیا گیا۔
جیسے ہی سوویت یونین کی سپرپاور کی حیثیت ختم ہوئی تو اسامہ بن لادن سمیت جن مجاہدین کو دنیا بھر سے امریکہ اس خطے میں لایا تھا اوران کے سنگ طورخم بارڈر پر امریکی جرنیل کلمہ شہادت بلند کیا کرتے تھے‘ انہیں امریکہ نے پہلے طالبان‘ پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان کے لئے زمین تنگ کردی تو دوسری طرف امریکہ نے افغانستان پر مکمل قبضہ جمالیا اور پاکستان کو بطور آلہ کار استعمال کیا جس سے پاکستان کو کم و بیش 70ہزار سے زائد سول و عسکری شہادتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان ہوا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلحہ‘ منشیات اور دہشت گردی کی ایسی لہر آئی کہ جس سے اب تک نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ عالمی طور پر امریکہ کے واحد سپرپاور بن جانے کے بعد تو نقشہ ہی بدل گیا اور امریکہ نے مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے اپنے نشانے پر رکھ لیا جس کی وجہ سے آج عراق‘ شام‘ لیبیا‘ افغانستان سمیت کئی ممالک کی حالت قابل رحم ہے۔امریکہ اب مزید دیگر مسلم ممالک پر قبضے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
امریکہ نے اسامہ بن لادن کی تلاش کے بہانے افغانستان پر قبضہ کیا اورنیٹو افواج سے ملکر افغانستان میں ’’امن‘‘ قائم کیا۔ حالانکہ اسامہ بن لادن کو امریکہ ہی یہاں لایا تھا اور شاید اسے اسکے ٹھکانے کا علم بھی تھا لیکن اس نے افغانستان میں اسے گرفتار کرنے کے بجائے پاکستان میں حساس علاقے میں اسکی گرفتاری کا کھیل رچایا تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جاسکے۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنی صدارتی مدت کی تکمیل سے قبل کابل کے محل میں ’’جشن فتح‘‘ منایا لیکن اگلے صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد ان الفاظ میں شکست تسلیم کرلی کہ ’’افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ذمہ دار پاکستان ہے‘‘۔امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات میں افغانستان سے امریکی انخلاء کی جو ڈیڈ لائن دی تھی صدر بائیڈن نے اسی شیڈول پر مکمل عملدرآمد کیا۔
ہمیں اب ایک بار پھر 1979ء والی غلطی نہیں کرنی کیونکہ پہلی غلطی کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل پائے اور اگر خدانخواستہ دوسری غلطی کرلی گئی تو پھر ملک کا آ ہی حافظ ہوگا۔ اب پاکستان کو صرف اپنی سرحدی حدود کے دفاع اور تحفظ تک محدود رہ کر معاشی ترقی کی منازل طے کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی اور خطے یا دنیا کا ٹھیکہ دار بننے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان کو اسکے عوام کی صوابدید پر چھوڑا جائے کہ وہ جسے چاہیں اقتدار دیں اور ہمیں اب دوسرے ممالک میں مداخلت کی پالیسی چھوڑنی ہوگی۔اس وقت پاکستان کی افغان پالیسی کے متعلق صدر‘وزیراعظم‘ آرمی چیف‘ ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر خارجہ کو ہی بیان دینا چاہئے اور ان افراد کے علاوہ تمام وزراء و حکومتی عہدیداران کی اس بارے بیان بازی پر پابندی عائد کی جائے۔ عالمی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح اور دوٹوک ہونی چاہئے اور اس سے ہٹ کر کوئی غلط بیان بازی کے اندیشے کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔