حضور نبی کریم ﷺ نے قرض سے بچنے کے لیے ان الفاظ میں تلقین فرمائی۔ اے اللہ میں اندر کے روگ اور حزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے اللہ میں بخل اوربزدلی سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ میں عجز اور کسل مندی سے بچنے کی التجا کرتا ہوں اور آخر میں ارشاد فرمایا اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں قرض سے مغلوب ہو جائوں اور لوگ قرض کا مطالبہ کرتے ہوئے مجھ پر سختی کرتے پھریں۔
حضور نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری معاشی رہنمائی کے لیے ایک اصول ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے متعدد بار قرض سے بچنے کی تلقین فرمائی ایک موقع پر ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص رسی لیکر جنگل کی طرف نکل جائے اور وہاں سے لکڑیاں جمع کر کے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور بازار میں بیچ دے اور اس طرح اپنی ضروریات کو پورا کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھر لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی خواہشات پر قابو پانے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کرنے کے ساتھ اس بات کی تلقین بھی فرمائی اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد میں بھر پور حصہ لینے کی تاکید فرمائی۔ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کمائی بھی نہ کرے بلکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدو جہد کرے اوران تمام خواہشات سے بچے جن کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے اور بعد میں پریشانی کا سبب بنے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو لوگ اپنے ہاتھ سے رزق حلال نہیں کماتے اور بغیر استحقاق کے دوسروں سے سوال کرتے ہیں قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ وہ دولت جو ذخیرہ کر کے رکھی آگ کی صورت میں ان کے جسم سے چمٹ جائے گی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو لوگ کام کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھلائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محنت کر کے رزق کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔
ایک صحابی نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ عنائیت فرمائیں آپ ﷺ نے اسے کچھ دینار دیے اور کہا کہ بازار سے کلہاڑی کا پھل لے کر آئو آپ ﷺ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا اور فرمایا جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرو۔وہ شخص کچھ دن بعد حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ کے حکم پر عمل کرنے سے میں اپنی ضروریات بھی پوری کر رہا ہوں اور کچھ رقم جمع ہو گئی ہے یہ آپ ﷺ غریبوں مں تقسیم فرما دیں۔