پاکستان میں تعلیم کا حصول پہلے بھی کوئی آسان کام نہیں ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات سامنے آ رہے ہیں جن سے عام آدمی کے لیے تعلیم حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا جارہا ہے۔ تازہ اقدام یہ ہوا ہے کہ لاہور تعلیمی بورڈ نے نویں اور دسویں جماعت کی داخلہ فیسوں میں 50 فیصد تک اضافہ کردیا ہے جس سے پرائیویٹ طلبہ کے لیے تعلیم کا حصول مزید مشکل ہونے کا امکان ہے۔ نہم کی داخلہ فیس میں ایک سال کے دوران 34 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نہم کی داخلہ فیس 1610 سے بڑھا کر 2200 روپے کردی گئی۔ اسی طرح دہم جماعت کی فیس میں بھی ایک سال کے دوران 2310ء سے 3480 روپے تک کر دی گئی۔ نہم کی فیس میں 590 روپے اور دہم کی فیس میں 1170 روپے تک اضافہ ہوا۔ دہم کی سرٹیفکیٹ کی فیس 700 روپے سے بڑھا کر 1000 روپے کردی گئی۔ سپورٹس فیس 100 روپے سے بڑھا کر 280 روپے، ڈویلپمنٹ فیس 200 روپے سے بڑھا کر 350 روپے، پروسیسنگ فیس 530 سے بڑھا کر 870 روپے اور داخلہ فیس 700 روپے سے بڑھا کر 900 روپے کردی گئی. بورڈ حکام کا کہنا تھا کہ بورڈ کے روزمرہ کے معاملات چلانے کے لیے معمولی داخلہ فیس بڑھائی گئی۔ بورڈ حکام کا موقف یہ واضح کرتا ہے کہ وہ عام آدمی کے مسائل سے واقف نہیں ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم پہلے ہی عام آدمی کی دسترس سے باہر کر دی ہے۔ اب سرکاری تعلیمی بورڈ داخلہ فیس بڑھا کر غریبوں کے بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر رہا ہے۔ ایک طرف سرکاری سکولوں کو نجی ملکیت میں دینے کی خبریں گرم ہیں اور دوسری جانب تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے، اس صورتحال میں عام آدمی کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا عملاً ناممکن ہو جائے گا۔ پڑھا لکھا پنجاب کی داعی وزیراعلیٰ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔