میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف کے بانی چئرمین عمران خاں نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کو جیل میں ملاقات کے دوران ’’طاقت ور حلقے‘‘ سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ طاقت ور حلقے جسے آگے کریں۔ اس سے مذاکرات کر لئے جائیں۔ مذاکرات کے لیئے بانی چیئرمین نے یہ شرط رکھی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے، پی ٹی آئی کا مینڈیٹ واپس کیا جائے اور پی ٹی آئی کے مقید تمام افراد کو رہا کیا جائے۔ عمران خاں کی بہن علیمہ خاں نے بھی عمران خاں کی جانب سے گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لئے دئیے گئے اختیار کی تصدیق کی ہے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ عمران خاں کی فائنل کال کی بنیاد پر 24 نومبر کے احتجاج کی تیاریاں جاری ہیں جبکہ عرفان صدیقی اور دوسرے حکومتی سینیٹرز نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا مظاہرہ اور دھرنا روکنے کے لئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے عہدے داروں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی تعطل پیدا ہونے کی بنیاد پر دوطرفہ مذاکرات کا راستہ کھولنا ہی جمہوریت کی عملداری کی علامت ہوتا ہے اور ماضی میں اپوزیشن تحریکوں کے دوران مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بے شک سڑکوں پر آ کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا اپوزیشن سمیت ہر شہری کا آئینی حق ہے اور پرامن احتجاج میں کوئی مضائقہ بھی نہیں مگر احتجاج کی آڑ میں قانون ہاتھ میں لے کر ملک میں دنگا فساد ، افراتفری اور خون خرابے کا راستہ اختیار کیا جائے تو ریاست کے لئے قانون کی عملداری کے اقدامات اٹھانا بھی لازمی تقاضہ بن جاتا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی اب تک کی اپوزیشن سیاست کے دوران ملک میں قیاس اور افراتفری پیدا کرنے کی ہی کوشش کی ہے جس کے باعث جمہوری نظام بھی دائو پر لگا نظر آتا ہے۔ اسی تناظر میں عمران خاں کی احتجاج کی موجودہ کال پر بھی حکومت اور انتظامی مشینری امن برقرار رکھنے کے سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض قائدین اور اس کے حامی حلقے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کی مفاہمت کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لئے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل زیاد ہ متحرک ہے، تاہم حقائق اس کے قطعی برعکس نظر آتے ہیں اور گزشتہ روز سیاسی اور عسکری قیادتوں پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی باور کرایا گیا ہے کہ انتہاء پسندی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس صورت حال میں بہتر تو یہی ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کی جائے تاہم جن شرائط کی بنیاد پر پی ٹی آئی مذاکرات کرنا چاہتی ہے ان کی قبولیت کا بادی النظر میں کوئی امکان نظر نہیں آ رہا چنانچہ جب تک فریقین اپنے لہجے میں نرمی پیدا نہیں کریں گے، مذاکرات کی کوئی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گی۔