قومی اپیکس کمیٹی نے بلوچستان میں متحرک دہشت گرد تنظیموں کے سد باب کے لیے جامع فوجی آپریشن شروع کرنے اور نیکٹا کو دوبارہ فعال کرنے اور قومی و صوبائی انٹیلی جنس فیوژن اور خطرات کی تشخیص کے مراکز کے قیام پر اتفاق کیا ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں اور وزارتوں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے پر خصوصی زور دیا گیا ہے تاکہ انسداد دہشت گردی مہم پر بلاتعطل عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی کابینہ، صوبائی وزراء اعلیٰ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور سینئر سرکاری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کا ایجنڈا ’’پاکستان کی انسداد دہشت گردی (سی ٹی) مہم کی بحالی‘‘ پر مرکوز تھا۔ شرکاء کو بدلتے ہوئے سکیورٹی منظرنامے اور امن و امان کی عمومی صورتحال، ذیلی قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششوں کے خلاف اقدامات، مذہبی انتہا پسندی، غیر قانونی سپیکٹرم اور جرائم و دہشت گردی کے گٹھ جوڑ سے نمٹنے، تخریب کاری اور غلط معلومات پھیلانے کی مہم سمیت دیگر اہم چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی نے ان کثیر الجہتی چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹنے کے لئے ایک متحد سیاسی آواز اور ایک مربوط قومی بیانیے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وژن عزمِ استحکام کے فریم ورک کے تحت قومی انسداد دہشت گردی مہم کو ازسرنو متحرک کرنے کے لئے تمام جماعتوں کی سیاسی وابستگی سے بالاتر سیاسی حمایت اور مکمل قومی اتفاق رائے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پہلی کمٹمنٹ دہشت گردی کا خاتمہ ہے، دوسری اور تیسری بھی یہی ہے۔دہشتگردی کا خاتمہ ناگریز ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے، کوئی یونیفارم میں اور کوئی یونیفارم کے بغیر، ہم سب نے ملکر دہشت گردی کے ناسور سے لڑنا ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والی ٹی ٹی پی کو مذاکرات کے ذریعے قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔اعتماد سازی کے طور پر اس کے خلاف اپریشن بند کر دیئے گئے مگر ٹی ٹی پی بدستور ملک بھر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتی رہی۔اسی بنا پر اس کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ آپریشن ضربِ عضب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔اسی کے باعث دہشت گرد پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے۔کچھ پاکستان میں جہاں جگہ ملی وہاں چھپ گئے۔دہشت گردی کم ترین سطح پر پہنچی تو ضربِ عضب آپریشن کا خاتمہ کر دیا گیا۔بڑی کارروائیاں کرنے کی ٹی ٹی پی میں سکت نہیں رہی تھی مگر دہشتگردی کے چھوٹے موٹے واقعات کبھی رک نہ سکے۔دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔اس ایکشن پلان کا کسی طور بھی خاتمہ نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن ضربِ عضب اپریشن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نیشنل ایکشن پلان بھی تاکِ نسیاں ہوتا چلا گیا۔پاکستان میں دہشت گردی امریکہ کی جنگ میں افغانستان کے خلاف ساتھ دینے پر در آئی تھی۔امریکہ افغانستان سے سرخرو ہو کر گیا یا رسوا ہو کر، یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے مگر پاکستان کو اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں 90 ہزار سے زیادہ جنازے اٹھانے پڑے جن میں 10 ہزار پاک فوج کے شہید ہونے والے سپوت بھی شامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دہشت گردی کا ایسا نشانہ بنا کہ اب تک بھی اس کے اثرات باقی ہیں بلکہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب پاکستان ایک بار پھر بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔گزشتہ روز بنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے بھیانک واقعہ میں 12 سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے۔اس خود کش حملے میں چھ دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔مالی خیل میں دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والیاجلاس میں نیکٹا کی بحالی اور قومی و صوبائی انٹیلی جنس ’’فیوژن اینڈ تھریٹ اسسمنٹ سینٹر‘‘ کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیاہے۔پاکستان کے دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے کے بعد سے آج تک دہشت گردی کسی نہ کسی صورت موجودرہی ہے۔کبھی اس کی سطح کم ہو جاتی ہے کبھی بہت اوپر چلی جاتی ہے. اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں. دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کسی بھی حکومت کی کمٹمنٹ پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا مگر کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی )کوغیر فعال کیوں رکھا گیا؟
بلوچستان سمیت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ٹی ٹی پی ،بلوچ علیحدگی پسند اور مذہبی انتہا پسند تنظیمیں پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کے ایمابروئے کار ہیں۔بھارت کے ہی ایما پر ان کی پشت پناہی افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے۔افغانستان کی آج کی عبوری حکومت کو انگیج کر لیا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کم ترین سطح پر آ سکتی ہے۔طالبان اگر مثبت جواب نہیں دیتے تو پھر لامحالہ پاکستان کو اپنا ’’ہر صورت دفاع‘‘ کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین میں سے کئی دہشت گردی میں ملوث ہیں اور ان میں سہولت کاروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ان سب کو بلا تفریق ان کے ملک میں بھجوا دیا جانا ہوگا۔سہولت کاروں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان میں ایک شق بھی موجود ہے۔ اس پر بھی اس کی روح کے مطابق کم ہی عمل ہوا ہے۔سہولت کاری کے بغیر دہشت گردی کی کوئی کارروائی کامیاب ہو جائے اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دہشتگردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے۔ہر سیاسی پارٹی چاہے وہ حکمران پارٹیوں کی جتنی بھی مخالف ہو اسے بھی دہشتگردی کے خاتمے جیسے کاز کیلئے ساتھ بٹھانا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی یہ خیال کرنا ہوگا کہ اس کے جو بھی تحفظات ہیں وہ پاکستان کے مفادات سے بالاتر نہیں ہیں۔دہشتگردی کے یک نکا تی ایجنڈے پر وہ بھی ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے میں عار نہ سمجھے۔
دہشتگرد تنظیموں کیخلاف جامع فوجی اپریشن کی منظوری
Nov 21, 2024