جمعرات،18جمادی الاول  1446ھ 21 نومبر 2024

عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حکومت پنجاب کی پالیسیوں کی تعریف۔
اب وہ پارٹیاں جو اپنے اپنے صوبوں میں عوامی خدمات اور انقلابی خدمات کا ذکر کر تے نہیں تھکیں۔ اس بارے میں کیا کہیں گی، سوائے افسوس کے ہاتھ ملنے کے اور الزام تراشی کے۔ کارکردگی کا جواب کارکردگی سے دیا جاتا ہے۔ تقاریر سے نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی مقابلہ حسن تقریر نہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
 آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر نہ تھا۔ 
اب یہ جو پنجاب حکومت کے منصوبوں اور اصلاحات کی تعریف ہوتی ہے یہ کسی ملکی ادارے نے نہیں کی بلکہ بین الاقوامی اداروں نے کی ہے جنہیں کچھ لے دے کر اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ جناب ہمارے حق میں رپورٹ شائع کریں۔ معلوم نہیں سندھ اور خیبر پی کے میں کسی اصلاحی اور انقلابی منصوبے کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت تو چلو مقابلے میں نہ سہی پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اپوزیشن کے خوف سے اپنا دم خم قائم رکھتی نظر آتی ہے۔ مگر خیبر پی کے میں تو کوئی مضبوط اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ اس لیے شاید وہاں کی حکومت کارکردگی کی بجائے بڑھک بازی ،نعرے بازی سے کام چلا رہی ہے۔ وہاں کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جس کی تعریف ہو۔ یہ بات وہاں کی اعلیٰ عدالت کئی بار کہہ چکی ہے جس سے حکومت کی بیڈ گورننس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہاں کی حکومت پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں بہتر سے بہتر کارکردگی دکھاتی تاکہ عوام کو یقین ہو جاتا کہ اس پارٹی کی حکومت سب سے اچھی ہے اور باقی صوبوں کے لوگ بھی اپنے حکمرانوں پر دبائو ڈالتے کہ ویسے کام کریں جو وہاں ہو رہے ہیں۔مگر افسوس تحریک انصاف اتنے عرصے سے خیبر پی کے میں حکمرانی کرنے کے باوجود کچھ زیادہ ڈیلیور نہیں کر سکی۔ لگتا ہے انہیں احتجاجوں ، جلوسوں اور دھرنوں سے فرصت ہی نہیں۔ اس کے برعکس پنجاب کا 400 بلین روپے کا سرپلس بجٹ اور صحت، تعلیم و روزگار کے علاوہ زراعت کے شعبہ میں بہتر کارکردگی کو ترقیاتی منصوبوں کو سب سراہ رہے ہیں۔ 
 تحریک کے حوالے سے موجودہ قیادت  قیدی رہنمائوں سے مشورہ  ہی کر  لیتی۔۔ شاہ محمود قریشی۔ 
 تحریک انصاف کے وائس چیرمین نے  گزشتہ دنوں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے آزاد رہنمائوں سے جو ابھی تک جیل کی سیر سے محفوظ ہیں اور پارٹی کے حوالے سے فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیل سے بانی کے احکامات لے کر اس کو پھیلاتے ہیں ان سے کہا تھا کہ کم از کم پالیسی بنانے اور تحریک چلانے اور احتجاج کی کال کے حوالے سے ہم سے بھی مشورہ کرتے تو شاید ہم قیدی کچھ بہتر مشورہ دیتے مگر موجودہ قیادت نے ہمیں اس قابل نہیں سمجھا۔ شاہ محمود قریشی کپتان کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کے رہنمائوں کو اب کھڈے لائن لگایا جا چکا ہے۔ ان میں وائس چیئرمین بھی شامل ہیں جو پنجاب سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ کہاں گئیبزرگ رہنما یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری ، محمود الرشید وغیرہ جو ڈیڑھ سال سے قید ہیں انہیں آج تک کوئی ملنے   بھی نہیں آیا۔یہ تو اب اپنی جماعت میں ہی اجنبی بن چکے ہیں۔ یہ شکوہ بھی محمود قریشی نے ہی کیا ہے۔کہ ساری سرگرمیاں، شور شرابا صرف لگتا ہے خیبر پی کے میں ہی ہو رہا ہے۔ پارٹی قیادت اور پالیسی بھی ان کی ہی مرضی سے بنائی جاتی ہے۔ مرشد بی بی ایک آدھ دن کیلئے لاہور آئیں۔ زمان پارک میں شب بسری کے بعد شاید کچھ وظائف مکمل کئے اور پنجاب کے کسی رہنما سے ملاقات نہیں کی۔ انہیں شاید اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے مشورہ ہی کرتیں۔ سیدھی خیبر پی کے چلی گئیں اور وہاں کے وزیر اعلیٰ ہائوس میں مورچہ جما لیا ہے۔ یوں پنجاب والی قیادت بیوہ سہاگن بنی نظر آتی ہے کیونکہ ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘‘ اس وقت خیبر پی کے کی قیادت پیا کے من کو بھا گئی ہے۔ اب پنجاب والے صبر و شکر کے  سوا اور کر کیا سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے تو بڑی مروت کے ساتھ بات کی ہے ورنہ اگر پنجاب کی قیادت بھی علی امین گنڈاپور، اسد قیصر اور سابق رفیق خاص مراد سعید کی زبان میں بولنے لگے تو پھر پارٹی کا شیرازہ بکھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔  پشاور  میں احتجاج کے لیے بلائے اجلاس میں ہی دیکھ لیں گنڈاپور نے حماد اظہر اور اسلم اقبال کو بات ہی نہ کرنے دی روک دیا۔ایسی بھی کیا بیزاری اور نفرت۔ 
روس نے میزائل حملے کے بعد تیسری عالمی جنگ کی دھمکی دیدی۔
امریکی صدر بائیڈن چنڈال والا کام کر کے جاتے جاتے ایک ایسا فتنہ چھوڑ گئے ہیں جس کے اثرات گہرے ہوں گے۔ انہوں نے یوکرائن کو جدید امریکی لانگ رینج میزائل فراہم کر دئیے جو گزشتہ روز اس نے روس کے خلاف استعمال کئے۔ روسی حکام کے مطابق کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا۔ یوں اب امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالتے ہی روس کی طرف سے سخت جوابی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جو اب کھل کر تیسری عالمی جنگ کی دھمکی دے رہا ہے۔ جبکہ نئے امریکی صدر ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کی نوید سْنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے اسے میں ختم کرا دوں گا۔ اب معلوم نہیں جنگ ختم کرائیں گے یا جنگ کرنے والے ملکوں کو نیست و نابود کر کے ختم کیا جائے گا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ روس اور یوکرائن کی جنگ کا بھی وہ خاتمہ چاہیں گے یا جب تک امریکی میزائل اور اتحادیوں کا اسلحہ موجود ہیے۔وہ یوکرائن کو روس پر اس طرح حملے کرنے کی اجازت دئیے رکھیں گے۔ اس میزائل حملے کے بعد تو لگتا ہے روس کا صبر بھی جواب دے گیا ہے اور وہ تیسری عالمی جنگ کی باتیں کر رہا ہے۔ اب اگر اس نے بھی یوکرائن پر اسی طرح جوابی میزائل حملے کئے تو پھر واقعی ہم اپنی آنکھوں سے تیسری عالمی جنگ کا نظارہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔  امید ہے امریکہ اور اس کے اتحادی اس بیان کو سنجیدگی سے لیں گے اور ایسی نوبت آنے نہیں دیں گے۔ ورنہ جنگ ہوئی تو پھرواقعی دنیا کا امن ہی دائو پر نہیں لگے گا اور بہت کچھ بھی ملیامیٹ ہو جائے گا۔ امریکی بلاک کے مقابلے میں روس بلاک بھی اس جنگ میں کود پڑا تو پھر واقعی  کئی سو کوس کے فاصلے پر ایک دیا جلتا  نظر آئے  گا، والی بات  سب کے  سامنے ہو گی۔  اگر ایسی ہی دھمکی اسلامی ممالک نے اسرائیل کو دی ہوتی تو آج فلسطین کی حالت  ہے یہ نہ ہوئی ہوتی۔ مگر ہمارے حکمرانوں میں ایسا کرنے کا حوصلہ کہاں۔ 
پی آئی اے کا دوسرا طیارہ بھی بائی روڈ ٹرالے پر کراچی سے حیدر آباد روانہ۔
جس احسن طریقے  سے پی آئی اے کے ناکارہ طیارے کراچی سے حیدر آباد بذریعہ سڑک منتقل کئے گئے ہیں۔ اگر اسی حسن نیت کے ساتھ پی آئی اے کو ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بنانے کی کوشش کی گئی ہوتی تو آج اس قومی ائیر لائن کو تباہ کر کے اپنی نجی ائیر لائن کو کامیاب بنانے والے شرفا کبھی یوں عیش نہ کر رہے ہوتے۔ ان کی بھی عزت کی جاتی مگر وہ سیاسی رہنما مگرمچھ کے آنسو بہا بہا کر قومی ایئر لائن کو خالی برتن بنا گئے اور اپنی ائیر لائن کا ڈبہ بھر  گئے۔  یہ ہوتی ہے سیاسی دانائی جس میں قومی نہیں ذاتی مفادات کو اولیت دی جاتی ہے۔ کیا اس کا جواب ہے کسی کے پاس کتنی عجب  بات  ہے کہ سعودی ائیر لائن کے پرانیطیاروں کو جب بذریعہ سڑک ایک سے دوسرے شہر منتقل کیا گیا تو اس کی وہاں یوں کوریج کی گئی کہ ایک بڑا عجوبہ ہو۔ وہاں تو قومی جشن کا سماں تھا حتیٰ کے ہمارا میڈیا بھی وہاں کی بڑی بڑی سڑکوں پران طیاروں کی ٹرالوں پر سواری کافی د ن دکھاتا رہا۔ ایسا ہی کارنامہ جب ہمارے ہاں انجام دیا جا رہا ہے تو بس واجبی سی تصویر دکھا خبر دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ شاید اسی پر کسی دل جلے نے کہا تھا 
’’ہمارا کتا کتا آپ کا کتا ٹومی‘‘ 
اب پی آئی اے کی نجکاری کا شہرہ ہے تو خدارا اس کو اگر بحال نہیں کر سکتے تو کوڑیوں کے دام نہ بیچا جائے۔ جس تارکین وطن پاکستانیوں کی ایک کمپنی نے اسے سوا کھرب میں خریدنے اور اس کے ذمے سوا دو ارب روپے کے واجبات بھی ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اگر دینا ہے تو اسے دیا جائے۔ یوں 10 ارب 20 ارب یا 80 ارب کی قیمت بہت کم ہے۔ پی آئی اے اربوں روپے مالیت کے ملک کے اندر اور باہر اثا  ثے رکھتا ہے۔اسے سستا بیچنے والے یاد رکھیں۔پاکستان مخالف  ایک نیشنلسٹ عالم دین مولانا ظفر علی خاں کے نام ملی خدمات کے حوالے سے کانگریس کا منی آرڈر آیا تو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا 
غداری وطن کا صلہ سات سو فقط۔
 ایمان بیچنا ہے تو سستا نہ کیجئے
کیونکہ یہ قومی ایئر لائن کا معاملہ ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن