افغانستان کی طالبان حکومت نے دوسرے ملکوں سے درآمد کردہ کتب کا لائبریریوں اور دوسری جگہوں پر معائنہ کرتے ہوئے غیر اسلامی یا دین مخالف کتب پر پابندی لگا دی ہے۔ ان پابندیوں کی زد میں حکومت مخالف کتب بھی آئی ہیں۔طالبان نے 2021 میں برسر اقتدار آنے کے فوری بعد اپنے وزارت اطلاعات و ثقافت کے زیر اہتمام ایک کمیشن قائم کیا تھا ۔ تاکہ وہ ان کتب کا لائبریریوں اور دکانوں پر جائزہ لیں اور جو کتب غیر اسلامی پائی جائیں ان پر پابندی لگائی جا سکے۔ماہ اکتوبر میں طالبان حکومت کی وزارتِ اطلاعات نے اعلان کیا کہ اس نے 400 کتابوں کو اسلام دشمنی پر مبنی قرار دیا ہے۔ یہ کتب اسلام کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ افغان اقدار کے بھی منافی ہیں۔ اس لیے ان کتب پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ان میں سے بڑی تعداد میں کتب کو مارکیٹوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔وزارت اطلاعات و ثقافت نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ طباعت و اشاعت اور قرآنی نسخے تقسیم کرنے کا محکمہ اور اس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر تحریر کردہ اسلامی کتب کو پابندی کی زد میں آنے والی کتب سے تبدیل کیا جائے گا۔تاہم فوری طور پر وزارت اطلاعات و ثقافت نے لائبریریوں اور مارکیٹ سے اٹھائی گئی کتب کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ البتہ پبلشرز اور حکومت کے پاس ملازمین نے بتایا ہے کہ ٹیکس بکس کو طالبان حکومت کے پہلے سال اور ابھی حالیہ مہینوں میں مارکیٹوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ پبلشرز کا 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کتب کی اشاعت کے حوال سے ایک سینسر عائد ہے اور ہر طرف ایک خوف کی فضا ہے۔
واضح رہے کتب پر اس طرح کی پابندی اشرف غنی حکومت کے زمانے میں بھی عائد رہی ہے۔ اس سلسلے میں بدعنوانی اور دباؤ دونوں ہتھکنڈوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے وزارت اطلاعات و ثقافت سے پابندیوں کی زد میں آئی ہوئی کتابوں کی فہرست میں دیکھا ہے کہ ان میں لبنانی امریکی مصنف خلیل جبران کی حضرت عیسیٰ کے بارے میں کتاب کو بھی توہین آمیز قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی ہے۔ اسی طرح البانیہ کے ایک مصنف اسماعیل قادر کی کتاب پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ جبکہ افغانستان کے بارے میں میر واعظ بلخی کی لکھی گئی کتاب کو طالبان حکومت نے منفی پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی ہے۔